Saturday 10 February 2018

Madaris Islamia Jame Taleem ka Markaz



قلعہ ٔاسلام مدارس اسلامیہ کو جامع تعلیم کا مرکز بنانے کے لیے 

مخلصانہ عملی اقدام کی ضرورت

اسلام کی بقااور مسلمانوں کی دینی تشخص کی حفاظت پر  زور دینے  والے اس مضمون جسے معروف و متحرک عالم دین مولانا الیاس ندوی بھٹکلی صاحب نے بعنوان ’’اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تندجولا ں بھی‘‘تحریرکیا جوایسے  وقت میں جب کہ مدارس  سے  ناواقف نادان شیعہ  وقف کے چیئر مین وسیم رضوی نے مدارس کے  خلاف فتنہ  انگیز بیان دے کر امت میں بے چینی پیدا کردی تھی کافی مقبول ہوا ۔واقعی اس مضمون سے کچھ چیزیں حذف کردی جائیں تو اس مضمون کو امت کے اس ناگزیر  حالات میں حوصلہ بخش کہا جاسکتا ہے۔جس  سے عوام مدارس کی اہمیت اور ضرورت  کی وضاحت ہوتی ہے۔اس مضمون کا  ناقدانہ اور  مدلل تجزیہ ’’مدارس اسلامیہ، اہمیت و افادیت : چند قابل غور پہلو‘‘جسے معروف عالم دین مولانا مجیب الرحمٰن عتیق ندوی صاحب تحریر کیا ہے۔

دونوں مضامین اپنے آپ میں بہت خاص ہے جسے پڑھنے کی ضرورت ہےتاکہ قلعہ ٔاسلام مدارس اسلامیہ کو جامع تعلیم کا مرکز بنانےکے لیے کچھ عملی اقدام کی نشاندہی ہوجائے اور امت اس جانب خصوصی توجہ دے۔

اس لیے میں  نے دونوں مضامین بالاستعاب اور مکمل  پڑھے، اس  کے بعد محسوس ہوا کہ اول الذکر مضمون میں کچھ باتیں تھیں جومجھے بھی کھٹکیں جس کا ناقدانہ جائزہ لینا بہت ضروری تھا۔مثلاً مسجد اقصی میں خطبہ جمعہ کے وقت  کا واقعہ جس کا ثانی الذکر مضمون ’’مدارس اسلامیہ، اہمیت و افادیت : چند قابل غور پہلو‘‘میں بھرپور تعاقب کیا گیا ۔

اسی طرح عصری علوم سے یکسرمنہ موڑلینے  والی باتیں جو مضمون پڑھنے سےمحسوس ہوتی ہیں۔علامہ اقبال ؒ اورمفکر  اسلام ؒ کے اقتباسات جنھیں دلیل  کے طور پر پیش کیا گیا اور ان سے یکطرفہ  رائے قائم کی گئی ۔جس پر ثانی الذکر مدلل تجزیہ نے بہت کچھ واضح کردیا  ہے۔

دونوں مضامین کا خلاصہ پیش  کرتے ہوئےیہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مدارس اسلامیہ جو دینی قلع ہیں، اسلامی نظام کی ترویج و اشاعت  اوردعوت و تربیت کا مرکز ہیں،انھیں   قدیم علوم میں پختگی اور  بصیرت ،دینی تشخص ، حلال و حرام کے امتیاز کے ساتھ زمانوں کے جدید  تقاضوں سےبھی ہم آہنگ کیا جائے، جن سے علمائے کرام میں اتنی صلاحیت اور جامعیت آجائے کہ وہ مطلوبہ قائدانہ کرداربہ حسن و خوبی ادا کرسکے اور اسلامی نظام کی خصوصیات سےمعرفت خداوندی  کے ساتھ دنیا کو اخلاقی گراوٹ اور اقتصادی مشکلات سے نجات دلاسکے۔یہی مدارس اسلامیہ کا تشخص  ہونا چاہیے۔ تبھی جا کر موج تندجولاں بھی اٹھے گی اور مدارس اسلامیہ کی بھرپور اہمیت و افادیت لوگوں کے سامنے آئے گی۔

یہ  اسلامی نظام کی خصوصیت  ہے کہ وہ ہر زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنےاور اس کے مطابق اس کا ہر ممکن حل  پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا جس طرح بدلتے حالات میں اورہر دور  میں اسلاف نے زمانےکے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے نظام تعلیم کوبہتر بنانے کی کوشش کی ہے ہمیں بھی اس  کاخیال رکھتے ہوئے اس جانب توجہ دینی چاہیے ۔

واضح رہےکہ بسااوقات جو لوگ مدارس کے نظام ِتعلیم میں تبدیلی کو مدلل انداز میں پیش نہیں  کر پاتے  ہیں۔ اس کی وجہ ان کی دوسروں کے نظام تعلیم  سے مرعوبیت اور غیرمخلص ہونا ہے جو لوگ یکسر تبدیلی کے مخالف ہیں یا اس میں ذرہ برابر بھی تبدیلی (جو کہ عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئےبے حد ضروری ہے)کو براداشت نہیں کرپاتے اس کی وجہ ان کا  وہ روایتی نظریہ ہے جس سے ہٹنا نہیں چاہتے۔جس  سے ان  کایہ  اندیشہ ہے کہ اگر اس میں عصری علوم کی شمولیت ہوئی تو دھیرے  دھیرے مدارس اپنا وہ تشخص کھو دے گا، جو اس کی روح اور اس کے قیام کا مقصد ہے۔

اس طرح دیکھا جائے تو  معاملہ افراط و تفریط کا ہے، جب یہ رائے معتدل ہو  جائے اور  غوروخوض کے ساتھ مخلصانہ عملی اقدام کی طرف توجہ ہو تو بہت کچھ بدل  جائے گا ۔پھرمسلمانوں  کے زیر اثر وہ عصری درسگاہ جہاں دینی تعلیم کا فقدان ہے وہاں بھی دینی تعلیم کا چراغ روشن ہوگا اور مدارس اسلامیہ اپنے تمام خصوصیات کے ساتھ جامع تعلیم کا مرکز ہوگا۔        

محب اللہ قاسمی

  

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...