Showing posts with label Other. Show all posts
Showing posts with label Other. Show all posts

Wednesday 3 June 2020

Lockdown Men Infaq



لاک ڈاؤن میں انفاق
مسلمانوں کی جانب سے قابل قدر خدمات

انسان کو جو کچھ بھی میسر ہے۔ وہ سب اللہ کی دین ہے۔ اس کا عطیہ ہے۔ انسان کا اپنا کچھ نہیں ہے۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے:      وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ (اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے،ا س میں سے خرچ کرتے ہیں۔)
دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ تعالی کی عطا کردہ رزق کی کشادگی اور مال و دولت  کی فراوانی ہے اور یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے بے پناہ عطا کرتاہے۔
مگر یاد رہے  زیادہ پیسہ ہونا اہم نہیں، پر دل بڑا ہونا بہت اہم ہے. بڑے دل والے اپنی ایک روٹی میں بھی دوسرے ضرورت مند کو آدھی بلکہ کبھی پوری روٹی کھلا دیتے ہیں. وہ دل کھول کر عطیہ، صدقہ و خیرات کرتے ہیں ،جب کہ زیادہ پیسے اور چھوٹے دل والے پیسے بنانے اور گننے میں ہی رہ جاتے ہیں۔گویا وہ عطا و بخشش اور انفاق کی عظیم خوبی سے محروم ہوتے ہیں۔
یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ سخاوت مومن کی پہچان ہے جب یہ انتہا کو پہنچ جائے تو ایثار ہے، جو اللہ کو بہت پسند ہے جب کہ بخل ایمان کے لیے دیمک سے کم نہیں! الحمدللہ اس لاک ڈاؤن میں مسلمانوں نے  ضرورت مند، بے کسوں و بے سہارا بھوکوں پر بے دریغ خرچ کیا ہے اور بڑی حد تک ان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوششیں کی ہیں۔ اس کا اجر اللہ تعالی انھیں ضرور عطا کرے گا۔
آئیے ! لاک ڈاؤن میں بخل کو مات دیں لوگوں کی بھوک مٹائیں سخاوت سے کام لیں.نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: من کان فی حاجت اخیہ کان اللہ فی حاجتہ۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے گا! اللہ تعالی اس کی ضرورت پوری کرے گا۔
محب اللہ قاسمی
9311523016


Monday 1 June 2020

Darul Uloom Deoband



مادر علمی دارالعلوم دیوبند

دارالعلوم ایک ایسی تحریک ہے، جس نے بھارت کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے کے لیے بھر پور جد و جہد کی۔  اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر ملک بھر میں مدارس کا جال بچھایا، شرک و بدعات کا قلع قمع  کیا۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کی بقا کی انتھک کوشش کی اور کفر و الحاد کے مقابلے میں ہمیشہ سینہ سپر رہا۔

الحمدللہ میں اسی ادارے کا فاضل ہوں۔ میں شخصیت پرستی کا قائل نہیں، مگر ہمارے اسلاف و اکابر جن میں مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا عابد حسین، مولانا قاسم نانوتویؒ،  شیخ الہندمولانا محمودحسنؒ اورمولانا اشرف علی تھانویؒ  وغیرہ  نے اسلامی احکام اور اس کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے بے لوث خدمات انجام دی ہیں، انھیں میں آئیڈیل مانتا ہوں۔ آج دنیا بھر میں جو لوگ بھی اسلام کو مکمل نظام حیات کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں اور متنوع دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ کہیں نہ کہیں ان سے  ضرور متاثر ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ان خدام دین کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مل کر للہ کام کریں۔  
محب اللہ قاسمی
ThankYouDarulUloomDBD#

Wednesday 29 April 2020

Book Ramzan aur Shaksi Irteqa

رمضان المبارک اورشخصی ارتقاء
رمضان المبارک کو تربیت اور شخصیت سازی کا مہینہ کہاجا تا ہے ۔اللہ اپنے بندوں کو اس ماہ کی اہم عبادت روزے کے ذریعے ایک خاص تربیت دیتاہے، جسے ’تقویٰ‘ کہتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید نے روزے کی فرضیت کا مقصدواضح کرتے ہوئے کہاگیا ہے:لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون:’’تاکہ تم میں تقوی صفت پیدا ہو۔‘‘روزہ تربیتِ نفس کا ایک اہم ذریعہ ہے، جو انسان کو صبراورنظم وضبط کا عادی بناتاہے ،کیوں کہ خواہشاتِ نفس پر قابوپانے کی بہترتربیت روزوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔

تربیت زندگی کے تمام شعبوںمیں کام یابی اورمقاصدکے حصول کے لیے نہایت ضروری ہے۔اس کے بغیرکسی بھی مقصدمیں کام یابی حاصل کرنامشکل ہے۔ ہرچیزکی نشو و نمااور ارتقاء کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔خواہ انسان کی علمی،عملی اورفکری لحاظ سے نشونماہویا خاندانی ،سماجی اور سیاسی اعتبارسے ارتقاء ۔
اس کتاب میں رمضان المبارک سے متعلق چند مضامین کو شامل کیا گیا ہے ۔امید ہے ان کے مطالعہ سے روزوں کو بامقصد بنایا جاسکے گا اور شخصیت سازی پر خصوصی توجہ دے کر اس ماہ مبارک کی ساعتوں سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے گا۔ اللہ تعالی ہماری عبادتوں اور ریاضتوں کو شرف قبولیت بخشے اور ہماری شخصیت میں نکھار پیدا کرے۔ آمین
اسی طرح اس ماہ میں انسانوں کو عبادت و اطاعت، زبان اور شرم گاہ کی حفاظت، غریبوں اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کی تربیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ذریعہ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ اللہ کی رضا کے مطابق زندگی بسرکرکے اس کے انعام (جنت ) کا مستحق بنائے اورجہنم کی آگ سے بچ سکے۔
درج ذیل لنک سے حاصل کر سکتے ہیں
محب اللہ قاسمی
نوٹ: یہ کتاب پی ڈی ایف فائل میں دستیاب ہے۔ خواش مند حضرات درج ذیل لیک سے حاصل کر سکتے ہیں:

Saturday 14 March 2020

AAP ka PAAP



آپ کا پاپ ،این پی آر کی جھپی

دہلی فساد کے زخم ابھی بھرے نہیں ، لوگ ابھی اس درد سے کراہ رہے ہیں ۔ مگر این پی آر کی قیامت خیز مصیبت جو پورے بھارت پر منڈلا رہی ہے، جس کے پیش نظر ملک کی تقریباً درجن بھر ریاستوں نے این پی آر کو رد کرتے ہوئے نامنظور کرنے کا فیصلہ لیا ۔ ایسے موقع پر جب سب کی زبان پر ایک ہی سوال ہو کہ کیا دہلی حکومت بھی دیگر ریاستوں کی طرف این پی آر کے خلاف  اسمبلی سے کوئی پرستاؤ لائے گی ۔ جسے دیکھتے ہوئے دہلی اسمبلی نے اس پر غور کیا اور وزیراعلی نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دہلی فساد کے دوران اپنی مجرمانہ خاموشی اورسیاسی داؤ پیچ میں خود ہی پھنس کر آپ نے جو پاپ کیا تھا، اس پاپ کو دھونے لیے این پی آر کی مخالفت والی گنگا میں ڈبکی لگا لی ۔

عوام بیچاری ،نفرت بھری سیاست کی دنیا میں اسے کوئی بھی ذرا سی پیارکی جھپی لگا دے ، اس پر قربان ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے عوام  آپ کی اس چھپی کو قبول کرتی ہے اور اسے خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ مگر کیاجنتا آپ کا وہ مہا پاپ کبھی بھول پائے گی ۔ یا بطور آزمائش ابھی آپ کو ایسی مزید ڈبکیاں لگانی ہوں گی؟
                              محب اللہ قاسمی

Wednesday 17 October 2018

غربت سے خاتمے کا عالمی دن


غربت سے خاتمہ گرممکن نہیں پر اسے کم تو کیا جاسکتا ہے؟
17 اکتوبر کو دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن دنیا بھر میں غربت، محرومی اور عدم مساوات کے خاتمے، غریب عوام کی حالت زار اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سمینار، مذاکروں، مباحثوں اور خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا جا تا ہے۔
یہ دن منانے کا سلسلہ  1993ء سے بدستور جاری ہے۔25 برسوں سے یہ عالمی دن منا یا جا رہا ہے۔ اس دن سے غربت کے خاتمے کیلئے عالمی طور پر کوششیں کی جاری ہیں لیکن آج بھی دنیا میں غریب افراد کی تعداد دو ارب سے زائد ہے جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ا ٓج بھی غریب بے گھر اور کسم پرسی کی بدترین حالت میں جی رہے ہیں ۔
غربت کے خاتمے کے حوالے سے  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ عالمی بینک کی رپورٹ ”ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق بھارت میں غربت کی شرح 68 اعشاریہ 7 فیصد ہے۔ ہندوستان میں سیاسی قائدین کی جانب سے غریبی کو دور کرنے کے مستانہ وار نعرے لگائے گئے،جن سے ان کی سیاسی دھاک قائم رہی  ساتھ ہی، غربت  بھی اپنے پاؤں پسارے وہی جمی رہی۔
دنیا کا سب سے زیادہ ترقی پذیر کہے جانے والے ملک امریکہ میں بھی 14 فی صد لوگ ہیں ۔غربت کی سب سے بھیانک شکل ہمیں ترقی پذیرممالک میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جس طرح ٹاٹا گروپ نے ہندوستان میں غربت سے خاتمے کے لیے قابل قدر کوشش کی اور غریبوں کو مواقع فراہم کیا جسے اقوام متحدہ نے بھی سراہا ہے، اسی طرح امریکہ میں بھی ان ہی کامو کرنے والوں نے عوامی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے کوشش کی۔ اگر انھوں نے اس میدا ن میں دلچسپی نہ دکھائی ہوتی تو امریکہ کا بھی گراف بہت نیچے ہوتا۔
غربت کے خاتمے کے لیے ایک طرف کمیونزم نے 80سال تک کوشش کی اور  بزور طاقت تمام افراد کو ایک سطح پر لانے میں اپنی پوری توانائی صرف کردی، تودوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام نے لوگوں کو مال و دولت حاصل کرنے کی پوری   آزادی دی، پھر بھی غربت سے خاتمے کا مقصد حاصل نہ ہوسکا ۔ کیوں  کہ دونوں افراط اور تفریط کے شکار تھے۔ نتیجہ میں ناکامی ہاتھ آئی۔ اسلام کا نظریہ اس سے بالکل الگ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ معیشت کا سودی نظام، جو اللہ تعالی کو بے حد ناپسند ہے ، یہ عام معیشت کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس سے  امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہو جاتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ غریبی کو بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا، کیو ں کہ یہ اللہ تعالی کا نظام ہے  ، اس میں  امیر و غریب دونوں رہیں گے، مگر غربت کو کم سے کم ضرورر کیا جاسکتا ہے ۔ کم از کم یہ تو ہو ہی جائے کہ ایک غریب انسان کوبھی دووقت کی روٹی  اور بنیادی ضرورت کا سامان میسر ہوجائے۔
غربت کو کم  سے کم کرنے میں سب سے بڑی وکاوٹ یہ ہے کہ امیر مالدار سے مالدار تر ہوتے جاتے ہیں اور غریبوں میں مال کی مناسب تقسیم نہیں ہوتی ۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان جس قدر فاصلہ بڑھے گا غربت کی شرح میں اسی قدر اضافہ ہی ہوگا۔ اس کے لیے سودی نظام، استعماریت اور پونجی واد کو فروغ دینے کے بجائے غریبوں کے ساتھ مساوات برتنا اور ان کی حالت زار کو محسوس کرتے ہوئے، ان کی جان و مال کا تحفظ اور سرکاری منصوبوں  کے اعلانات کے مطابق ان تک اموال کی فراہمی اور انھیں روزگار سے جوڑنا بے  حد ضروری ہے۔ انتخابات کے وقت جھوٹے اور پرفریب نعروں اور وعدوں کے بجائے انھیں حقیقت کا جامہ پہنانا ہوگا۔  رشوت اور کرپشن جیسی بیماریوں کو ختم کرنا ہوگا۔تبھی  ملک سے غربت کو کم سے کم کرنے میں کامیابی مل سکے گی، ورنہ ملک کی ترقی کے دعوےکا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ پھر یہ سوال برقرار رہے گا        ؎
دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا

Friday 12 October 2018

Sick society (بیمار معاشرہ اور تشخیصِ مرض)



بیمار معاشرہ  اور تشخیصِ مرض

خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کا موضوع ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور اس وقت یہ metoo# کی تحریک مزید حساس موضوع بن چکا ہے. جس پر کھل کر گفتگو ہو رہی ہے. جب کہ آزادی نسواں کے پر فریب نعروں سے نسواں تک پہنچنے کی آزادی نے نت نئے مسائل پیدا کر رکھا ہے. اس پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی ہے. خواتین کی جانب سے دعوت نظارہ دینے والے غیر ساتر لباس اور مردوں کو رجھانے والی اداؤں پر کچھ نہیں کہا جا رہا ہے. مرد و زن کے متعینہ حقوق ہیں تو کچھ ان کے واجبات بھی ہیں جنھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے.

اسی طرح قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ سے معاشرہ پر اس کے منفی اثرات پڑے ہیں اور پڑیں گے، جس سے نہ صرف عورتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ مرد بھی متاثر ہوتا ہے؟

ایسے میں اسلام کا نقطہ نظر واضح طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے.اس لیے اسلامی تعلیمات کو عام کرنا بہت ضروری ہے.

پرامن اور خوشگوار زندگی گزارنے کا خدائی نظام ۔ اسلام

اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں اسلام کے قوانین حکمت سے خالی نہیں ہیں۔ وہ انسان کی ضرورت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً قصاص کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

’’ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘(البقرۃ: 1799) بہ ظاہر اس میں ایک انسان کے خون کے بدلے دوسرے انسان کا خون کیا جاتاہے۔ مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اسی طرح زنا کرنے والے کو، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت، سرعام سوکوڑے مارنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی شخص زنا کے قریب بھی نہ جاسکے۔ عوتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو۔ نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ زنا عام نہ ہو اور معاشرے کو تباہی اور انسانوں کو مہلک امراض سے بچایا جاسکے۔ اس لیے وہ انسانوں کو پہلے اخلاقی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات
اسلام انسانوں کومعاشرتی زندگی تباہ وبرباد کرنے والی چیزوں مثلاً ظلم وزیادتی، قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی، چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانھیں اپنے مالک اورپیدا کرنے والے کا خوف دلا کر ان کے دل کی کجی کودرست کرتاہے۔ آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں، صرف اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ان تمام مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔

جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے اسی طرح دوسروں کی عزت وناموس کاخیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی مانند استعمال کی جارہی ہیں، گھراورحجاب کو قید سمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔ اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے جس سے وہ غیرمحفوظ ہوں اورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظربد کا شکار ہوجائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اسلامی احکام کو اپنے لیے قید سمجھ کر اس سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی وہ دنیا کی بد ترین اور ذلت آمیز بیڑیوں میں جکڑ کر قید کرلیا گیا ہے۔

یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ کائنات کے خالق و مالک اور احکم الحاکمین کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس لیے ا س میں کسی کو ترمیم کی اجازت نہیں ہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا اللہ کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہ بغاوت پورے سماج کو تباہ و برباد کردتی ہے۔ یہی مسلمان کا عقیدہ ہے۔ جسے معمولی عقل و شعور رکھنے والا ہر فرد بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

خواتین کے لیے ہدایات
اسلام نے خواتین کو علیحدہ طوربہت سی باتوں کا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوںسے روکاہے۔ مثلاً انھیں اپنے بناؤ سنگارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :
اور اے نبی ﷺ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوںکی حفاظ کریں، اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے، اوراپنے سینوںپر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں (النور:۳۱)

دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:
’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۵۹)

اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروں میں پھرنے کے بجائے گھروںمیں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا: ’’اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی ﷺ سے گندگی کودورکرے اورتمھیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (سورۃ احزاب:
۳۳)

اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوں کو ان کی طرف مائل کرے، یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے،
اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ؐنے ارشادفرمایا:’’ہر وہ خاتون جو خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبولے تو ایسی خاتون بدکار ہے۔ ‘‘(النسائی)


رسول اللہ ﷺنے ایسی خواتین پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا:ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوںکی کہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گی اورنہ ہی اس کی خوشبوپاسکیںگی۔‘‘ (مسلم)

علامہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوں کے لیے سخت قسم کی وعیدہے: باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاکدامنی سے منہ موڑنے والی اور لوگوں کو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوں کے لیے ۔‘‘

مردوں کوتنبیہ
اسی طرح مردوں کوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے) عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور زنا کے محرکات سے بچیں چہ جائے کہ زنا جیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی ) ہے۔اور براہی بڑا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :۳۲)

موجودہ دورمیں بوائے فرنڈاور گرل فرینڈ کا رجحان عام ہوگیا ہے، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ نے معاشرہ کو مزید متاثرہ کیا ہے۔ اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول اور غیرضروری گفتگو سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے، کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے: عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ (بخاری)

اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے، قرآن کہتاہے: اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوںکی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب:
۵۳)


اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیوراخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہوتے۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔
ll
محب اللہ قاسمی

Tuesday 9 October 2018

Ijlas Ulmaye Keram


اسلامی نہج پر فرد کی تربیت اور معاشرے کی اصلاح میں
 علماء کرام کا اہم کردار

معاشرے میں علماء کرام کا مقام و مرتبہ مسلم ہے، قرآن و حدیث میں ان کے مقام و مرتبہ کا تذکرہ موجود ہے. وارثین انبیاء کہہ کر ان کا تعارف کرایا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی ان پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئیں، وہ بھی واضح ہیں . علماء کرام قائدین امت اور اسلام کے ترجمان ہے.

لہٰذا بلا تفریق مسلک و منہج مل جل کر امت کے متحدہ مقاصد کے حصول اور اقامت دین کی کوشش کرنا، امت کے تمام دینی و اخلاقی، معاشرتی و سیاسی مسائل میں ان کی رہنمائی کرنا ان کی ذمہ داری ہے. جسے انجام دے کر وہ عند اللہ بہترین اجر کے مستحق ہوں گے اور دنیا میں اپنے رتبہ بلند کو برقرار رکھ سکیں گے.

جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی و ہریانہ کی جانب سے آج مورخہ 7 اکتوبر 2018 کو مسجد اشاعت اسلام کے توسیعی حصے میں ایک اجلاس عام بعنوان 'اسلامی معاشرے کے قیام میں علما کرام کا کردار' منعقد ہوا، جس میں مختلف مسالک کے علماء کرام نے شرکت کی.

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول سے ہوا. امیر حلقہ دہلی و ہریانہ جناب عبد الوحید نے افتتاحی کلمات پیش کیے، جب کہ مولانا محمد رفیق قاسمی صاحب، سکریٹری شعبہ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند نے کلیدی خطاب پیش کیا.

اس پروگرام کا ایک حصہ مذاکرہ بہ عنوان: 'اصلاح معاشرہ کیوں اور کیسے؟' تھا_اس کے کے پانچ ذیلی نکات تھے _ اسٹیج پر جلوہ افروز مختلف مسلک کے علماء کرام نے ان نکات پر اظہار خیال کیا.مولانا ولی اللہ سعيدی، سکریٹری شعبہ تربیت جماعت اسلامی ہند نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے مفید باتیں پیش کیں.
پروگرام کا اختتام محترم امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری کے فکر انگیز اختتامی خطاب اور دعا پر ہوا.

مولانا مفتی سہیل قاسمی نے اس اجلاس میں نظامت کے فرائض انجام دیے. پروگرام کے اختتام پر ظہرانے کا نظم کیا گیا تھا.

امید ہے کہ یہ اجلاس امت کے اتحاد اور اصلاح معاشرہ کے لیے مفید اور علماء کرام کی اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں معاون ثابت ہوگا.
Ijlas Ulmaye Keram 7 Oct 2018
محب اللہ قاسمی

Delhi Yadgargar Shaam


دہلی کی یادگار شام

نماز اور ظہرانے کے لیے آفس سے باہر آیا پھر نماز ظہر اور کھانے سے فارغ ہو کر قیلولہ کے لیے لیٹا تو نیند آ گئی دفتر تین بجے جانا تھا اسی دوران میرے گاؤں کے پیارے دوست جی این کے اسکالر حبیب اللہ کا فون آیا کہ میں، ابوالکلام، صادق اقبال اور ذاکر اقبال کو لے کر آ رہا ہوں. پانچ بجے تک پہنچ جاؤں گا.. میں نے کہا: ہاں ہاں آؤ!

پھر میں دفتر جانے کی تیاری میں لگ گیا کہ اب سونا بے کار تھا. خیر سب لوگ آئے مگر ساڑھے پانچ بجے. سب نے چائے پی پھر سب کو لے میں اپنے کمرے میں چلایا آیا. کچھ دیر وہیں گفتگو کی.اسی دوران احمد عالم سے فون پر بات ہوئی اس نے کہا: آپ سب لوگ میرے یہاں ذاکر نگر آئیے. یہاں احمد اللہ (پرنس) بھی ہے سب کی ملاقات ہو جائے گی.

خیر ہم سب لوگ ذاکر نگر چلے گئے. وہاں پہنچے ہی تھے کہ معلوم ہوا لو فیکلٹی ڈی یو کے آصف اقبال آ رہے ہیں. حسن اتفاق دیکھتے ہی دیکھتے ہم سب گاؤں کے آٹھ لوگ جمع ہو گئے. سب لوگوں کا اس طرح اتفاقاً ملنا جس پر خوشی کے فطری آثار سب کے چہرے سے ظاہر ہو رہے تھے.

ہم لوگوں نے خوب گپ شپ کیا. فاطمہ چک اسمبلی کی یاد تازہ ہو گئی. مختلف موضوعات جس پر مختلف آراء، کھل کر اظہار خیال بڑا مزہ آیا.مصروف زندگی میں اس طرح اپنوں کے درمیان تبادلہ خیال سے جمود توڑنے، زندگی زندہ دلی سے جینے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ملتا ہے.

خیر عشا کی نماز بعد اجتماعی عشائیہ کا پروگرام ہوا جس میں فراخ دلی کے ساتھ مہمان نوازی کا شرف احمد عالم صاحب کو حاصل ہوا.احمد اللہ صاحب کی طرف سے یہ بات بار بار آئی کہ اس طرح کی ملاقات اتفاقی نہیں منصوبہ بند بھی ہونی چاہیے جس کی ہم سب نے تائید کی.

راقم الحروف کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ہم سب گاؤ والوں کے بھلے ہی مکان علیحدہ ہوں، الگ رہتے ہیں مگر ہم سب گاؤں والے گویا ایک گھر کے فیملی ممبر ہیں، جو سب آپس میں سکھ دکھ کے ساتھی ہیں.

معقول عشائیہ کے بعد ہم لوگوں نے کلہڑ (مٹی کا گلاس) والی چائے پی اور سلام کے ساتھ بادل نہ خواستہ جدا ہو کر ان خوشگوار یادوں کے ساتھ اپنی منزل کی اور چل پڑے.

یہ خوبصورت شام فاطمہ چک کے نوجوانوں کے نام تھی جو راجدھانی دہلی جیسے مصروف شہر میں ملاقات، گفت و شنید کے لیے اتفاقا جمع ہوئے.
محب اللہ قاسمی

Khabib 🆚 McGregor (world champion)


میرے ساتھ اللہ ہی کافی ہے۔فاتح فائٹر خبیب

ہرمسلمان کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔ اس لیے وہ  اپنی زندگی کو اپنے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق اور انھیں اپنا آئیڈیل مان کر گزارنے کو نہ صرف عقیدت و محبت سے تعبیر کرتا ہے بلکہ اسی میں اپنی کام یابی بھی تصور کرتاہے۔

سیرت رسولﷺ کے حوالے سے یہ واقعہ بہت معروف ہے کہ  ایک موقع سے جب آپ ؐ کسی غزوہ میں شریک ہوئے، تو راستے میں ایک درخت پہ اپنی تلوار لٹکا کر اس کے سایے میں لیٹ گئے۔ تبھی ایک دشمن آیا اور آپ کی تلوار لے کر کہنے لگا: ’’ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘جواب میں آپ ؐ نے فرمایا :اللہ! یہ سنتے ہی تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور آپ نے تلوار اپنے قبضے میں لیا ۔اسی طرح مصارعت رکانہ کا واقعہ بھی کافی مشہور ہے جب ایک معروف پہلوان نے آپ کو کشتی لڑنے کی دعوت دے اور خود کو ماہراور تجربہ کار پہلوان مانتے ہوئے مقابلہ میں آپ کو شسکت دینے کی بات کی۔ سیرت کے اوراق گواہ ہے کہ آپ نے اسے تین بار پچھاڑا اور چت کردیا۔

ایسے ہی گزشتہ روز امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں UFC کے تحت مکے بازی کا خطر ناک مقابلہ ایک جاں باز مسلم فائٹر خبیب عبداللہ مینوپووچ نورماگدوف اور دنیا کے خونخوار ،خطرناک ترین مارشل آرٹسٹ کونر میگریگرکے ساتھ ہوا۔ میگریگر ایک معروف اور میدان فتح کرلینے والا خطرناک فائٹر تھا، مگر اسی قدر وہ ایک بد تمیز ،شریر اور مذہب اسلام کو حقیر سمجھنے والا نامعقول شخص بھی تھا۔ 

اگر خبیب کی ویڈیو، جو نیٹ پر دست یاب ہے، دیکھی جائے تو یقین ہو جائے گا کہ اسے مسلمان سے کتنی نفرت تھی اور وہ کس طرح خبیب کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتا تھا اور اسے اس کے مذہب کو لے کر پریشان کرتا تھا اور اسے شراب پینے کے لیے پیش کرتا خبیب اسے حرام کہہ کر نکار دیتا تھا۔ وہ طاقت کے نشے میں چورخبیب کو حقارت آمیز انداز میں کہتا تھا کہ تم مجھ سے کسی صورت میں مقابلہ جیت نہیں سکتے۔ اگر تم میرے سامنے میدان میں آئے تو میں تمہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل کر رکھ دوں گا ۔ تمہارا جان بچانا مشکل ہو جائے گا،جس پر خبیب صرف یہی کہتا تھا کہ میرے ساتھ میرا اللہ ہے ۔ میرے لیے یہی کافی ہے۔

ایسے میں یہ مقابلہ دنیا کا انوکھا مقابلہ بن گیا، جس پر عالم اسلام کی نگاہیں جمی ہوئی تھی۔ مقابلے کے وقت سب کے دل دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں کیوں کہ وہ اپنے فائٹر خبیب کو بہ ہر صورت اس مقابلے کا فاتح دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔مقابلہ شروع ہوتے خبیب نے اسے پیٹا ،  اس پر خوب پنچ برسائے اور چوتھے راؤنڈ میں  اس کی گردن اس قدر دبوچی کہ اس خونخوار اور کبھی نہ ہارنے والےمیگریگرنے فوراً ہار تسلیم کرلی ۔

اس میچ کے ناظرین نے اس حیران کن مقابلہ اور گریگر کی ناقابل یقین شکست پر ایک مسلم بہادر کی تاریخی فتح  اور اس کے بعد خبیب کے انٹرویو کو دیکھ کر یقیناً بہت کچھ سبق حاصل کیا ہوگا اور مسلمانوں کا ایک بار پھر یہ احساس جاگا ہوگا کہ اسے اپنے سامنے رسولؐ کو اپنا آئڈیل مان کر وہی طریقہ اختیار کرنا چاہے جو دنیا کے ہر میدان میں ایک مسلمان کا ہونا چاہیے۔ہم سب خبیب کی اس کام یابی پر انھیں مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔
محب اللہ قاسمی

Tuesday 31 July 2018

Tabili : Khair o Shar

تبدیلی: خیر یا شر؟

       جو تبدیلی کتاب و سنت کو تبدیل کردے جو اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہو۔ اس تبدیلی پر کوئی خوشی مناتا ہو تو منائے پر میں اسے ذلت آمیز تبدیلی مانتا ہوں۔

       ہاں اگر یہ تبدیلی کتاب و سنت کے مطابق اسلامی تعلیمات کے نفاذ اور عدل وانصاف کے ساتھ مدینہ منورہ کے طرز پر ایک فلاحی ملک بنانے کے لیے ہو جہاں عوام کے پیسے امانت کے طور پر استعمال ہو، بدعوانی اور اخلاقی پستی سے اٹھ کر عوام کے امن و امان اور خوشحالی کے لیے ہو، اس کا استقبال کیا جانا چاہیے۔

       کیا ایک کپتان سے بہتر کپتانی کی امید کی جا سکتی ہے جس نے بلے سے کتاب اڑا دی ہو، آئندہ اس کا بلا اور کہاں کہاں چل سکتا ہے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ میدان میں اترنے والے اس کھلاڑی کو امپائر ٹھیک سے کھیلنے دیتا ہے یا کوئی میچ فکس کر لیتا ہے.

ان شاء اللہ یہ منظر بھی بہت جلد سامنے آ جائے گا کہ کون کس مقصد کے تحت کام کر رہا ہے۔ یوں تو اس صدی میں اس امت کو اپنے قائد سے زیادہ تر دھوکہ ملا اور جو مخلصین رہے ہیں انھیں بر طرف کردیا گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کیا ملتا ہے؟

محب اللہ قاسمی

Sunday 22 July 2018

Hindustan ko Linchistan na Banayen


ہندوستان کو لنچستان نہ بنائیں

ایک عالم مفتی کو دفاعی تھپڑ مارنے کی وجہ سے مجرم بنا کر جیل میں ڈال دیا گیا جب کہ دوسری جگہ  ہجومی دہشت گرد پیٹ پیٹ کر بے بس، بے قصور مسلمانوں اور دلتوں کی جان لے رہے ہیں اور ایسے خونخوار مجرم آزاد گھوم رہے ہیں، انھیں سزا دینے کے بجائے دیش کے منتری ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور یہ خونی کھیل مسلسل جاری ہے.

یہ کیسی پالیسی ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کیا ان باتوں سے دیش ترقی کر لے گا؟ کیا ان باتوں سے مہنگائی میں کمی آجائے گی؟ بے روزگاری ختم ہو جائے گی؟

یاد رکھیے! دیش کی ترقی عدل و انصاف اور قوم کے وکاس میں ہے، ان کا وناش کر کے قوم کا اعتماد اور وشواش کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا. بھلے ہی آپ ایوان میں اعتماد حاصل کر لیں. پر نہ بھولیں کہ آپ ہندوستان میں وکاس کا وعدہ لے کر آئے تھے. اسے لنچستان بنانے کا نہیں! ہندوستان میں امن و امان اور خوشحالی کی بحالی کےلیے نفرت کی اس سیاست کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔ پیار و محبت کی علامت کہا جانے والا تاج محل والے ملک ہندوستان کو لنچستان نہ بنائیں۔

ملی قائدین و سیاسی و رہنما یہ بتائیں کہ بے چاری غریب عوام جو آپ کو اپنا لیڈر اور رہبر مان رہی ہے جب ان کی جان ہی سلامت نہ رہے تو آپ کن کی قیادت کریں گے؟ اور کن کے رہنما کہلائیں گے؟ قائدین ملت قیادت کی ذمہ داری کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتے. ظلم و زیادتی کے سیلاب کو روکنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا. مظلوم کی ان سسکیوں میں جہاں ظالم کے خلاف بد دعائیں ہیں وہیں قائدین سے فریادیں اور آہیں بھی. انھیں محسوس کیجئے!
اللہ تعالٰی مظلومین کی مدد فرمائے، قائدین کو احساس ذمہ داری دے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے. آمین
محب اللہ قاسمی



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...