Monday 28 April 2014

Ghazal: yeh Khayal ek badi bhool hai

یہ خیال اک بڑی بھول ہے

تو نہ چل سکا تیری بھول ہے، یہی زندگی کا اصول ہے
یہاں لمحہ بہ لمحہ درد ہے، تحفہ بتا کیا قبول ہے

میں اگرہنسوں تو جلیں گے سب میں
جو رو پڑوں  تو کہیں گے سب
یہ ہے بے بسی کا مرقعہ اک
غم دل کا اس پہ نزول ہے

تو نہ چل سکا تیری بھول ہے، یہی زندگی کا اصول ہے

وہ شرافتوں کا بھی دور تھا
کہ ضیافتوں میں سرور تھا
اسی گھر میں ہیں بڑی برکتیں
مہماںکا جس میں نزول ہے

تو نہ چل سکا تیری بھول ہے، یہی زندگی کا اصول ہے

وہ ثبوت تیرے وجود کا
تیری فتح کا وہ نشان ہیں
نہ ستاؤ ماں کو نہ ماں باپ کو
 کہ تو ان کی گود کا پھول ہے

تو نہ چل سکا تیری بھول ہے، یہی زندگی کا اصول ہے

تمہیں رفعتیں ہو ہزارہا
 کبھی مت ستانا غریب کو
توسدا رہے گا عروج پر
 یہ خیال اک بڑی بھول ہے

تو نہ چل سکا تیری بھول ہے، یہی زندگی کا اصول ہے

فقط دھوپ و چھاؤں ہے زندگی
 جو گزر گیا سو گزر گیا
نہ تو فکر اس پہ رفیقؔ کر
 کہ خوشی کا اس میں نزول ہے

تو نہ چل سکا تیری بھول ہے، یہی زندگی کا اصول ہے


Sunday 13 April 2014

Naat: Maddah e Payambar ka Laqab mil Jaye


فخر کرنے کا ہمیں کوئی سبب مل جائے
کاش مداح پیمبر کا لقب مل جائے

آپ تو خلق حسن کے ہیں نمونہ اعلی
حسنِ کردار بہ صد حسنِ طلب مل جائے

بھوکے رہ کر جو غریبوں کی خبر رکھتا ہو
کاش قائد کو میرے ایسا ادب مل جائے

پھر کسی چیز کی حاجت نہیں ہوگی مجھ کو
ان کی گلیوں میں جو رہنے کا سبب مل جائے

ناز ہم کو بھی زباں پر ہو رفیقؔ خستہ

ان کی مدحت میں جو کہنے کا ادب مل جائے


Naat Mustafa Kuch aur hai



رحمت و برکت ہے ہر سو یہ فضاکچھ اور ہے
شہر آقا کی میاں آب و ہوا کچھ اور ہے

عہد حاضر کے مسلمانو! تمھیں ہے کچھ خبر
کام تو کچھ اور ہے، عہد وفا کچھ اور ہے

حشر کے دن پیرو سنت کہے گا فخر سے
منکرِ سنت کو کچھ مجھ کو ملا کچھ اور ہے

مدحتِ آقا سے پہلے سوچنا ہے لازمی
شاعری کچھ اور نعت مصطفی کچھ اور ہے

آمد سرکار سے روشن ہوا ہے یہ جہاں
وہ جہاں کچھ اور تھا اب یہ جہاں کچھ اور ہے

دھول رکھنا سر پہ طیبہ کی کہاں قسمت رفیقؔ
تاج کچھ خاک دیار مصطفی کچھ اور ہے





ہم برابراپنے دل میں  یہ سوچتے ہیں  کہ کوئی ایسی جگہ ہوتی جہاں  بے سرمائیگی کی زندگی بسر کررہے بچوں کوسہارا ملتا اور ان کا بچپن ضائع نہ ہوتا۔ تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی معقول نظم ہوتا۔ اللہ کی عبادت اس کے رسول کی اطاعت اور  انسانیت کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ ان کے اندر پیدا کیا جاتا۔  قوم وملت کی اصلاح و تربیت اور ان کی خدمت کے لیے افراد تیارکیے جاتے۔
مدارس اسلامیہ ایسی ہی جگہیں  ہیں یہ ملت کا عظیم سرمایہ ہیں ۔ یہ وہ جگہیں  جہاں  انسان کو انسان بنایا جاتاہے۔ ملت کی اصلاح وتربیت کے لیے افرادسازی کی جاتی ہے۔ جہاں  امیربچوں  کے ساتھ ساتھ بہ کثرت غریب ،یتیم وناداربچے آتے ہیں  اور ہمدردی وغم گساری کا درس لے کرجاتے ہیں ۔ ظلم وستم سے ناآشناامن،محبت اور  مساوات کا پیغام سنتے ہیں ۔ اپنے اساتذہ سے والدین کے حقوق بڑوں کا ادب احترام اور باہمی صلہ رحمی کے طور طریقے سیکھ کرجاتے ہیں اور اپنی خاندانی زندگی کو باوقار ا ور مستحکم بناتے ہیں ۔
اس لیے مدارس اسلامیہ کے فارغین مبارکباد کے مستحق ہیں  کہ انھوں نے اپنا قیمتی وقت یہاں  گزارکراسلام کی اشاعت اور انسانیت کی خدمت کے لیے خود کو تیار کیا۔ مادہ پرست حضرات انھیں  مجبوراوربے بس گردانتے ہیں  جب کہ یہی لوگ حقیقت میں  ان کی بے بسی اور  مجبوری کو دور کرتے ہیں  اور  ان کے لیے اس دنیاوی زندگی کے مسائل کا اسلامی حل پیش کرتے اور انھیں  جینے کے آداب سکھاتے ہیں ۔ اس لیے طلبہ مدارس اسلامیہ کو احساس کمتری کا شکار نہیں  ہونا چاہیے کیوں  کہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا بہترین فریضہ انجام دے رہے ہیں  جو اس امت کا امتیازی وصف ہے۔
جب ہم دنیاکی رنگارنگی سے پریشان ہوجاتے ہیں  اور اس کی چمک ودمک آنکھوں  کو تکلیف دیتی اور دل کی دھڑکن کو تیزکر دیتی ہے ، دنیاکی ہوس سکون قلب کو چھین لیتی ہے تویہی وہ فارغین ہیں  جو ہمارے لیے تسکین دل کا سامان فراہم کرتے ہیں  اور جوعام زندگی گزارکربھی خوشحال نظرآتے ہیں ۔
مسجد نبوی کے متصل صفہ کی شکل میں  اسلام کا پہلا مدرسہ قائم ہوا۔ اس کی بنیاد پر دنیا کے بے شمارمدارس کا قیام عمل میں  آیاجو قوم ومعاشرے کی فلاح وبہبود ،ملی وملکی مسائل کے حل کے لیے کوشاں  دکھائی دیتے ہیں ۔ جہاں  کے فارغین اللہ اور  اس کے رسول کے احکام کے مطابق دنیا کے تمام مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔  لوگوں کو اسلام کے پرامن سائے میں  زندگی گزارنے کی دعوت دیتے ہیں ۔
مدارس اسلامیہ کے بچوں پر ملت کی بڑی نگاہ ہوتی ہے، ہمیشہ انھیں  تنقیدکا نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔  شایدیہ ان کی ان بچوں سے توقع اور  اعتماد کی بات ہے۔ ورنہ غورکیاجائے توملت کے صرف تین فیصدبچے مدارس اسلامیہ کا رخ کرتے ہیں  بقیہ حضرات پتہ نہیں  کہا جاتے ہیں  اور کیاکرتے ہیں ۔ ان میں  زیادہ تر تو کالج اور  یونیورسٹیوں کا ہی رخ کرتے ہیں  جب کہ وہاں  بھی فارغین مدارس اپنی قابلیت اور صلاحیت کا جھنڈالہرارہے ہوتے ہیں  ۔ اس کے علاوہ اگر وہ بچے اونچی اونچی ڈگریاں حاصل کرلیتے ہیں  تب بھی ان کے اندر تربیت کا فقدان نظرآتاہے اس کے نتیجہ میں  معاشرہ بدامنی اور بے چینی کا شکار ہو جاتاہے۔
مدارس اسلامیہ اسلام کے قلعے ہیں  اور  وہاں  کے فارغین اسلام کے نمائندہ ہوتے ہیں ۔  اگریہ مدارس نہ ہوتے تو ایسے افراد کہاں  سے ملتے جوبرادران وطن کے سامنے اسلام کا صحیح تعارف کراسکتے یا ان کے اعتراضات کا جواب دے پاتے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں  اسلام کی خدمت کے لیے افرادتیارکیے جاتے ہیں  اور  وہی افراد دوسروں کوبھی دعوت دین کے لیے تیار کرتے ہیں  ، اس کے نتیجہ میں  آج بہت سے ایسے لوگ اس میدان میں  ہیں  جنہوں نے مدارس کی شکل نہیں  دیکھی مگردین کی خدمات انجام دے رہے ہیں  دراصل ان کے پس پشت یہی فارغین مدارس کار فرماہیں  جوسامنے دکھائی نہیں  دیتے۔
مساجد جنہیں  بیت اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے جہاں  نمازیں  اداکیں  جاتی ہیں  ان میں  امامت کے فرائض انجام دینے والے حضرات بھی فارغین مدارس ہی ہوتے ہیں  جو نہ صرف امام کی ذمہ داری نبھاتے ہیں  بلکہ اس معاشرے میں  رہنے والے فرزندان توحیدکو ابتدائی دینی تعلیم کے زیورسے بھی آراستہ کرتے ہیں  اور  وقتاً فوقتاً اپنے خطبات میں  معاشرے کی خرابیوں  کی نشاندہی کرکے اس کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ۔  وہ لوگوں کوبھلائی کاحکم دیتے ہیں  اور  برائیوں  سے روکتے ہیں ۔
اس لیے ملت کے اس عظیم سرمایہ کو اہمیت دینی چاہیے اور وہاں  طلبہ کی بہتری کے لیے جو بھی سہولیات ہوسکتی ہیں  انھیں  فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔  ملت کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مال واسباب میں  ان مدارس کا بھی حصہ متعین کرے ۔ مدارس اسلامیہ کے اساتذہ اور ذمہ داران قوم وملت کی امید کا مرکز ہیں  اس لیے ان کی نیک امیدوں کوبروئے کارلانے کی مسلسل جدو جہد کرنا ان حضرات کی اولین ترجیحات میں  شامل ہونا چاہیے تاکہ وہ دین کے اس چراغ کو روشن رکھ سکیں ۔  ساتھ ہی عوام کو چاہیے کہ مدارس سے ربط وتعلق پیدا کریں  اور  اپنے مسائل کا حل دینی نقطہ نظرسے معلوم کریں  پھرشریعت کی پابندی کو اپنی زندگی کے تمام نشیب فراز میں  لازم قرار دیں  کیوں  کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلام ہی ہے اور  وہی ہمیں  سیدھی سچی راہ دیکھاتاہے جس سے دین و دنیا دونوں میں  فلاح و کامرانی مل سکتی ہے۔
مدارس کے نصاب تعلیم پر اکثرگفتگوکی جاتی ہے کہ موجودہ دورکے لحاظ سے عصری علوم کی آمیزش ہواورپرانے علوم جن کی زیادہ ضرورت نہیں  پڑتی مثلاً منطق وفلسفہ یا نحوکی وہ کتابیں  جن کی ضرورت دوسری کتابیں  بھی پوری کردیتی ہے جیسے شرح جامی اس کی جگہ ہدایت النحواورکافیہ کافی ہے۔ ساتھ ہی زبان کا علم تبلیغ دین اور  اشاعت اسلام کے لیے بہت ہی مفید ذریعہ ہے ۔  اس غرض سے مختلف زبانوں کی تعلیم کوبھی دینی مدارس میں  جگہ ملنی چاہیے تاکہ طلبہ مدارس ان سے آراستہ ہوکر میدان عمل میں  اپنے مقصدکوبروئے کار لاسکے۔  چنانچہ علامہ انورشاہ کشمیری ؒ کا قول جب طلبہ میں  عربی یا فارسی کا بہت زیادہ رجحان تھا توآپ نے فرمایاتھا:
’’مولوی صاحب! ہندوستان میں  اگر اسلام اور دین کی کوئی خدمت پیش نظرہے تواردو میں  لکھئے پڑھئے۔ ‘‘ (ماخوذددارالعلوم دیوبند ویب سائٹ)
اب اگر انگریزی زبان یادیگرزبانوں  کا چلن ہوتواس زبان کو بھی سیکھناچاہیے ،اس سے دامن جھاڑدینا مناسب نہیں  ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی صحابہ کومختلف زبان اور  علوم سیکھنے کا حکم دیا تھا ۔
فراغت کے بعد مدارس کے طلبہ کی ایک بڑی تعداددیگر کالجوں اور یونیورسٹیز کا رخ کرتی ہے ،جب ان سے وجہ معلوم کی جاتی ہے تو ان کا جواب ہوتاہے کہ مدارس دینہ میں  اساتذہ کی اہمیت بہت کم کردی گئی ہے ،مہتمم خودکو مدرسے کا مالک سمجھ کر حکمرانی کرتے ہیں  ۔  اساتذہ کی تنخواہیں  نہیں  دیتے ،بہت ہی معمولی مشاہرہ ہوتا ہے جس سے موجودہ وقت کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں  ہوپاتی ،اس پر بھی غصب یہ کہ ماہانہ وقت پر حساب نہیں  ہوتا بلکہ کبھی کبھی تو کئی ماہ کے بعد انہیں  رسیدتھمادی جاتی ہے کہ وہ اپنی تنخواہ خوداکٹھا کرلیں ۔  جب کہ خود ان کی زندگی کا یہ حال ہے کہ وہ چمچاتی کاروں اور خوبصورت بنگلوں  میں  رہتے ہیں  اور  ا ن کی زندگی مزے سے گزرتی ہے۔
ایسی صورت میں  مدارس کے بچے خودکوان مشکلات میں  ڈھالنے اور مصیبت کو اپنا نے سے بچتے ہیں  ۔ دوسری جگہ انھیں نوکری نہیں  مل پاتی تو پھر کیا کریں  ۔  اس لیے انھیں  مجبوراً یہ راہ اپنانی پڑتی ہے اور بسااوقات وہ دینی وضع قطع اور  دینی روش سے بھی بے نیاز ہوجاتے ہیں ۔
اگریہ مدارس ملت اسلامیہ کا عظیم سرمایہ ہیں  تو وہاں  کے فارغین بھی ملت کے بہترین افراد ہیں  ۔ جب ایسا ہے توان کی تحقیروتذلیل مناسب نہیں  اور نہ ان فارغین کو احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ خداکی سرزین بہت وسیع ہے اس میں اپنا رزق تلاش کرسکتے ہیں ۔   لہذا وہ قوم کے مصلح ہیں  تو اپنی حیثیت کو نظرانداز نہیں  کرنا چاہیے۔ اگروہ دوسری جگہ حصول علم کی خاطر جارہے ہیں  تووہاں  بھی اپنی دینی شناخت قائم رکھتے ہوئے تبلیغ دین اور  قوم کی اصلاح کی خدمت انجام دیں  یہی ان کا فریضہ اور  مدارس میں  گزارے اوقات کا حاصل ہے ۔  بچپن کی اس طویل مدت کی تعلیم کونظراندازکرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں  ہے۔
اسی طرح مہتمم حضرات کوبھی اپنے رویے میں  تبدیلی لانی چاہیے ، ان کی اس طرح کی حرکت سے مدارس کا وقارمجروح ہوتا ہے اور یہی طریقہ دین کی اشاعت میں  روکاوٹ کا سبب بھی بن سکتاہے۔ انھیں  اپنے اندر احساس ذمہ داری کا جذبہ پیداکرنا چاہیے کہ یہ منصب اور  ذمہ داری بھی ایک قسم کی امانت ہے جس میں  خیانت کرنا صحیح نہیں  ہے کیوں کہ اس میں  امت کا ایک بڑا سرمایہ دینی تعلیم اور اسلام کی بازیابی کے لیے جمع ہوتاہے جسے غیرضروری جگہ پر صرف کرنا یا پھر ذاتی ضروریات پر خرچ کرنا کسی مؤمن کو زیب نہیں  دیتا، آخرت میں  سب کو خداکے یہاں  حساب دینا ہے اور وہاں  کوئی بھی بچ نہیں  سکتا۔
اگرقوم وملت کے لوگ مدارس اسلامیہ کی ترقی بہتری کے لیے کوشاں ہوں اور ذمہ داران مدارس ان کو امانت جان کر خداکے حضورمیں  گڑ گڑائیں  اور اس کے لیے دعاگو ہوں  ساتھ ہی پورے خلوص وللہیت کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیں  توایک بارپھر ملت کے اسی عظیم سرمائے سے دوبارہ شیخ الہند،اشر ف علی تھانوی،ابولحسن علی ندوی،مولانازکریاجسے عظیم رہبر، مفکر، مدبر اور  مصلح پیداہوسکتے ہیں ۔
٭٭٭

Sunday 6 April 2014

اسلامی اخوت -اہمیت و ضرورت



اسلامی معاشرہ کو پر امن ،مضبوط اور  مستحکم بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں  کا باہمی ربط وتعلق بہت گہرا ہو۔  ایسا نہ ہو کہ مسلمان اپنے میں  مگن رہے اور  اپنے لیے تو بہتری کی خواہش رکھے مگر دوسرے مومن سے لا تعلق ہو اور  ان کا برا چاہے اور ان کے ساتھ ہمدردی ،محبت اور  رواداری کے ساتھ بالکل پیش نہ آئے۔  جب کہ قرآن پاک میں للہ تعالی نے اہل ایمان کا باہمی رشتہ بالکل واضح کردیاہے کہ وہ آپس میں  بھائی ہیں ۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اہل ایمان تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں  ، لہذا اپنے بھائیوں  کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور  اللہ سے ڈرو ، اْمید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔  ‘‘ (حجرات:10)
ایک مومن کا تعلق دوسرے مومن سے اخوت پر مبنی ہوتاہے اگرچہ یہ رشتہ نسبی نہیں  ہوتا اور میراث وغیرہ کی تقسیم کا حکم اس پر نافذ نہیں ہوتا، اس کے باجود بھی مومن کا رشتہ ایسا مضبوط ہونا چاہئے کہ آدمی اپنے مؤمن بھائی کی تکلیف کواپنی تکلیف محسوس کرے ،اس کی جان ،مال ،عزت و آبروکی حفاظت کرے۔  اس پر ظلم گویا خود اپنے اوپر ظلم تصورکرے ۔  یہی ایمان کی کیفیت اور اس کا تقاضا ہے۔
اسلام نے امت مسلمہ کو جسد واحد قراردیا اور  بتایاکہ ایک جسم کے مختلف اعضاء کاجس طرح باہمی ربط وتعلق ہوتا ہے کہ اس کے کسی ایک عضوکو تکلیف پہنچے تو سارا جسم کراہنے لگتاہے۔ ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان خواہ وہ کسی بھی ملک کا ہو اسے ظلم وجبر کا نشانہ بنایاجائے ، وہ مظلومیت اور  اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتو اس کے اس درد کو محسوس کیاجائے اور اس پر ظلم کے خاتمہ کے لیے حتی الامکان کوشش کی جائے۔ مومن کے اس رشتہ کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ  ﷺکا ارشادہے:
مثل المؤمنین فی توادہم وتراحمہم و تعاطفہم مثل الجسد اذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمی (بخاری:5665  ومسلم:2586)
اہل ایمان کی مثال باہمی شفقت و محبت اور  الفت وعنایت میں  ایک جسم کی مانند ہے کہ جب اس کے کسی عضو کوکوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور  بخار میں  مبتلا ہوجاتاہے ۔
علامہ ابن تیمیہ ؒنے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے :
’’یہی وجہ ہے کہ مومن کو دوسرے مومن بھائیوں کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے اور ان کی تکلیف سے وہ بھی تکلیف محسوس کرتاہے۔  جس کے اندر یہ کیفیت نہ ہو وہ مؤمن نہیں  ہے۔ ان کا اتحاد اللہ اور  رسول پر ایمان اور  محبت کی بنیاد پرقائم ہوتا ہے۔  (مجموع الفتاوی)
یہ رشتہ کو کمال ایمان کے لیے ضروری ہے اور  اس تعلق میں  کوتاہی گویا ایمان میں  نقص کی علامت ہے۔  اس کی پاسداری کے لیے ضروری ہے کہ ایک مومن اپنے لیے جس چیز کو پسند کرتاہے وہی وہ اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔  نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لایومن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ
’’تم میں  سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل)مومن نہیں  ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کے لیے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔ ‘‘(متفق علیہ)
اس حدیث میں  ایک معاشرہ کی صلاح وفلاح کے لیے ایک جامع اصول بتایاگیا ۔ وہ یہ کہ ہرشخص کے اندراپنی بہتری اور بھلائی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی بھلائی اور خیرخواہی کا جذبہ ہوناچاہیے ۔  آج مسلمان بھی غیرقوموں کی طرح مفادپرست اور خودغرض ہوگئے ہیں ۔  انھیں دوسروں کا کوئی خیال نہیں  رہتاحتی کہ وہ اپنے پڑوسیوں  کے حقوق سے بھی ناآشناہوکربے حسی کی زندگی گزارتے ہیں ۔  اسلام ا س حرکت کو براہی تصورنہیں کرتا بلکہ اسے ایمان میں  نقص کی علامت بتاتا اور  کمال ایمان کے منافی قراردیتاہے ۔ رسول اللہ  ﷺکا فرمان ہے:
ما آمن بی من بات شبعانا وجارہ جائع الی جنبہ وہو یعلم بہ ۔
’’وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں  رکھتا جوآسودہ ہوکر سورہے یہ جانتے ہوئے کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے۔  (المعجم الکبیر للطبرانی)‘‘
رسول اللہ ﷺ نے ایسے کاموں کی تلقین کی ہے جن سے باہم محبت پیداہو۔ جلیل القدرصحابی حضرت عبداللہ بن سلام ؓ بیان کرتے ہیں  کہ جب نبیؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیگر لوگوں  کے ساتھ میں  بھی آپؐ کودیکھنے کے لیے گیا ۔ سب سے پہلی بات جو میں  نے آپ ؐکی زبان مبارک سے سنی وہ یہ تھی:
یا ایہا الناس افشوا السلام، اطعموا الطعام، وصلوا الارحام، صلوا والناس نیام، تدخلواالجنۃ بسلام    (ابن ماجہ، ترمذی)
’’اے لوگو!سلام کوعام کرو،لوگوں  کو کھاناکھلاؤ، صلہ رحمی کرو، جب لوگ سورہے ہوں تب نماز (تہجد) پڑھو۔  اگر تم ایسا کروگے تو جنت میں  سلامتی کے ساتھ داخل ہوگے۔ ‘‘
اس حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ امت کے افراد آپس میں  گھل مل کر رہیں  اور ان کا بنیان مرصوص کی طرح مضبوط ومستحکم ہو۔ اس کے لیے وہ اللہ تعالی سے  رات کے آخری حصے میں  نماز کے بعد دعا بھی کریں  تاکہ ان کے عمل کو اللہ کی تائید حاصل رہے اور  اللہ سے قربت اور لگاؤ میں  اضافہ ہو، خلوص وللہیت پیدا ہواورتوکل علی اللہ کی کیفیت پیداہو۔ پھریہ سب اعمال ان کے سلامتی کے ساتھ جنت میں  داخلہ کا سبب بنیں گے۔
اگر ہم اپنا ایک اصول بنائیں  کہ ہمیں  اسلامی اخوت کو برقرار رکھنا ہے۔  کسی صورت میں  اسے دیمک نہ لگے جو ہمارے تعلقات کھوکھلاکردے، تو اس کے لیے چندباتوں کا اہتمام ضروری ہے۔  مثلا:اگر کسی بات میں  کوئی نااتفاقی ہو گئی ہو اور  ناگوار حالات پیش آجائیں  تو تین دن سے زیادہ کسی سے لاتعلقی اختیار نہ کریں ۔ غیبت ،جھوٹ ،خیانت،دھوکہ دھڑی،حسدجیسی رزیل حرکتوں  سے گریز کریں ۔ کسی کو اپنے سے کم ترنہ سمجھیں ، کسی مذاق نہ اڑائیں ،کسی کا رازفاش نہ کریں ،کسی کو برے نام یاالقاب سے نہ پکاریں ،محبت کریں  اور  معاف کرنے کی عادت ڈالیں ۔
اسلامی اخوت کے تعلق سے نبی کریم ﷺ کا واضح ارشادہے :
المسلم اخوالمسلم لایظلمہ ولایسلمہ و من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ ومن ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ۔
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،نہ تووہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا، جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت میں  لگا رہے گا اللہ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو کسی مسلمان کی ایک پریشانی کو دورکرے گا اللہ تعالی قیامت کی پریشانیوں میں  سے اس کی ایک پریشانی دورکردے گا اور جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالی قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ ‘‘     (بخاری)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کواپنی ہی طرح دوسرے مسلمان کی حفاظت کرنی ہے اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ اس طرزعمل میں  خود اس کا فائدہ ہے ، کیوں  کہ اس کے بدلے میں  اللہ تعالی اس کاخیال رکھے گا ۔ اگروہ دوسروں کا خیال رکھے گا اور  اس کی عیب جوئی کے بجائے ،پردہ پوشی کرے گا تو خدابھی اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اگرانسان اپنے اوپر اپنے مسلمان بھائی کوترجیح دینے لگے گا یا کم ازکم اپنی ہی طرح اس کی بھلائی بھی چاہے گا تو اس کے نتیجے میں  اس کے اندرکی بہت سی خرابیاں اور  اخلاقی گراوٹیں خودبہ خود ختم ہوجائیں  گی ۔
عالم اسلام کی سطح پر مسلمانوں  کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ایمانی اخوت کی بنیاد پرجس قدر بے چینی محسوس کی جارہی ہے یہ یقینی طور پر ایمانی حلاوت کی دلیل ہے ۔ جس کے لیے عالمی سطح پرمظاہرے اور  عدل قائم کرنے کی کوششیں  تیز کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔  یہ ساری باتیں  خوش آئند ہیں  مگر کیا ہم اخوان المسلمون کی تربیت اور  ان کے ایمانی جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا پنا جائزہ لیں  تو ہمیں  نہیں  لگتا کہ آج مسلمانوں میں  باہمی محبت اور  ربط وتعلق اخوانیوں  کی طرح ہے ۔ آج مسلمانوں  میں دوسروں کی پریشانیوں کواپنی پریشانی سمجھ کر حل کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا جذبہ ختم ہوتا نظر آرہاہے۔ آج قومی اور  عالمی سطح پر مسلمان ایک دوسرے سے کٹے ہوئے سے محسوس ہوتے ہیں ان کا باہمی رشتہ کمزور سا معلوم ہوتاہے۔ حکومتی سطح پر تو یہ اخوت اور  بھی کمزورہے گویا اسے دیمک لگ گئی ہو ورنہ تاریخ کو سامنے رکھیں  تو ہمیں  معلوم ہوگا کہ چند مظلوم بے بس عرب مسلم خواتین پر راجہ داہر کے لوگوں  نے ظلم کیا، جس کی گونج اور  ان کا درد ساحل کے اس پار یوسف بن حجاج تک پہنچی اور  اس نے اس کو دہلاکررکھ دیا جس کے نتیجہ میں  اس نے محمد بن قاسم کی رہنمائی میں  ایک فوج بھیجی جس نے نہ صرف ان خواتین کو ان ظالموں کے چنگل سے آزاد کیا بلکہ سرہند کو فتح بھی کیا ۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں   رسول اللہ ﷺاورصحابہ کرام کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینہم (سورۃ الفتح:۲۹)
محمد اللہ کے رسول ہیں  اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں  وہ کفار پر سخت اور  آپس میں  رحیم ہیں ۔
اس کی تفسیرمیں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں  ۔
’’صحابہ کرامؓ کے کفارپر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ موم کی ناک نہیں  ہیں  کہ انھیں  کافرجدھرچاہیں  موڑدیں ۔ وہ نرم چارہ نہیں  ہیں  کہ کافرانھیں  آسانی کے ساتھ چبا جائیں ۔  انھیں  کسی خوف سے دبایانہیں  جاسکتا۔  انھیں  کسی ترغیب سے خریدانہیں  جاسکتا۔ کافروں میں  یہ طاقت نہیں  ہے کہ انھیں  اس مقصد ِ عظیم سے ہٹادیں  جس کے لیے سردھڑکی بازی لگاکرمحمدﷺ کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں ۔ (اورآپس میں  رحیم ہیں )یعنی ان کی سختی جوکچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں  ہے۔  اہل ایمان کے مقابلے میں  وہ نرم ہیں ،رحیم و شفیق ہیں ،ہمدردوغمگسارہیں ۔ اصول اور مقصدکے اتحاد نے ان کے اندرایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی وسازگاری پیداکردی ہے۔ ‘‘(ترجمہ قرآن مع مختصرحواشی)
اگر مسلمانوں  کے اندر ایمانی حمیت اور  اسلامی اخوت بیدا رہوگی تو وہ دنیا والوں  کی نگاہ میں  بہ حیثیت مسلمان بہت ہی مضبوط اور  مستحکم ہوں گے۔  وہ ایک جسم کے مانند تصور کیے جائیں  گے ، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں  کیوں  نہ ہوں ۔ پھر دشمن انھیں  سوئی بھی چبھونے سے قبل سوبار ضرور سوچیں گے۔ پھر وہ نہ صرف اپنے اوپر ظلم کے خلاف برسرپیکار رہیں  گے بلکہ وہ عام انسانوں  پر بھی ظلم کو برداشت نہیں  کریں گے اور  ہر ممکن عدل قائم کرنے کی کوشش ہوگی۔  لیکن اگرخود ان کا باہمی تعلق مضبوط نہ ہوگا اور ان کی مشکلات سے چشم پوشی کرتے ہوئے انھیں  مظلوم و بے بس چھوڑدیا جائے گا تاکہ دشمن اسے موم کی ناک سمجھے اور  ان کے ساتھ جیسا معاملہ چاہے کرے ،انھیں چینٹیوں  کی طرح روندے اور  گاجرمولی کی مانندکاٹے اور  دوسرے تمام مسلمان خاموش تماشائی بنے رہیں ۔  یہ سب باتیں  انتہائی شرم ناک ہیں  جو مسلم معاشرے کی تباہی وبربادی کی دلیل ہے۔
٭٭٭


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...