Friday 10 February 2017

Mujrim ۔ Urdu Short Story

مجرم

                                                      محب اللہ

رات کا سناٹا تھا، دھڑام سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی ،چوکیدار چوکنا ہوا ، اپنی لائٹ کی روشنی ادھر اُدھر دکھائی اچانک ایک شخص دکھائی دیا جو اپنے تھیلے میں کچھ لیے ہوئے دیوار پھاندنے کی کوشش کررہاتھا۔اس نے چور چور کی آواز لگائی اور فوراً اس کو دبوچ لیا۔ ڈاکٹر صاحب(گھر کے مالک) نیند سے جاگے اوربھاگے ہوئے آئے۔ فوراً پولیس کو بلایااور چور کو پولیس کے حوالے کردیا۔
آج عدالت میں چو ر کی پیشی تھی۔ جج صاحب آئے اور کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے کہا:’’ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے‘‘

ملزم کو پکڑے ہوئے پولیس آگے بڑھی۔

 ملزم نے ان سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے دبے لفظوں میں کہا :جو رشوت خور ہیں وہ میرا ہاتھ نہ پکڑے اور خود ہی آکر کٹگہرے میں کھڑا ہوگیا۔

وکیل نے ملزم سے سوال پوچھا:’’تمہارا نام کیاہے؟ ‘‘

ملزم:’’رمیش‘‘
وکیل:’’تمہارے والد کیا کرتے ہیں؟‘‘
ملزم:’’وہ اب دنیا میں نہیں ہیں‘‘
وکیل:’’تمہاری تعلیم؟‘‘
ملزم:’’تیسری کلاس پاس ہوں‘‘

وکیل جج کو مخاطب کرتے ہوئے:’’جناب والا! ہمارے دیش میں جرائم کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ لوگ پڑھتے لکھتے نہیں ۔ ایسے ہی بچے ،نوجوان گلی محلوں میں جمع ہوکر چور ،لٹریرے بن جاتے ہیں، جو سماج کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

وکیل نے ملزم کو پھر سے مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا:’’تم اتنے بڑے ہوتم نے تیسری جماعت تک ہی پڑھائی کی، آگے کی تعلیم مکمل کیوں نہیں کی؟‘‘

ملزم:’’ میرے ماں باپ کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد میرے اسکول کی مہنگی فیس کون بھرتا ،جسے میرا باپ اپنی گھر کی ضروریات کاٹ کر پورا کرتا تھا۔ اسی طرح ان لڑکوں کاکھانا کھا کر جینا اور اپنے بیمار ماں باپ کو زندہ رکھنا بھی ضروری تھا جن کے درمیان میں پلا بڑھا تھا۔یہ زیادہ بہتر تھا یا اسکول جانا اور اسکول کی فیس ادانہ ہونے پر ڈانٹ سننا۔

وکیل صفائی نے جج سے درخواست کی:’’ جناب والا، میرے فاضل دوست کا ملزم سے ایسے سوالات کا کیا مطلب ہے؟‘‘

وکیل : ’’جناب ! میں عدالت میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ان جرائم کی وجوہات کیا ہیں ، اس لیے ملزم سے میرا یہ سوال ضروری تھا۔‘‘
جج نے کہا:’’آپ ملزم سے متعلقہ سوال ہی پوچھیں!‘‘
وکیل: ’’تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر چوری کی ہے۔ تمہیں چوری کرتے ہوئے رنگے ہا تھ پکڑا گیا ہے۔ تمہارے پاس سے نقد ی کے علاوہ سونے کے زیورات بھی برآمد ہوئے ہیں۔ تم مجرم ہو!کیو ںیہ بات درست ہے یا نہیں؟ ‘‘
ملزم:’’ میں پکڑا گیا اس لیے چور ہوں!‘‘پھر ڈاکٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’اگر چور میں ہوں تو چور یہ بھی ہیں‘‘!

اس جملے سے عدالت میں سناٹاچھاگیا ۔ لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگی۔ ڈاکٹر اور چور!۔
وکیل :’’جناب والا ! مجرم نے اقرار کرلیا ہے کہ وہ چور ہے۔ مگراپنے بچاؤ کے لیے اس نے ہمارے موکل ڈاکٹر کو چور ٹھہرایا۔‘‘

ملزم:’’ کیا ڈاکٹر صاحب مریضوں کو اپنے کمیشن کے چکر میں اضافی ٹسٹ، مہنگی دواؤں اور ہائی اسکور بل کے ذریعے نہیں لوٹتے؟ تو پھر مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے؟یہی نہ کہ میں رات کے اندھیرے میں یہ کام انجام دیتا ہوں اور وہ دن کے اجالے میں ۔

اب بتائیے !ڈاکٹر صاحب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ وکیل صاحب؟

وکیل کے جواب نہ دینے پر وکیل صفائی (ملزم کے وکیل) نے کہا:
’’جناب والا! یہ بات بہت اہم ہے ۔ لہذا میںملزم کی جانب سے ڈاکٹر صاحب سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں ،مجھے اس کی اجازت دی جائے۔‘‘

جج نے اجازت دیتے ہوئے کہا:
’’ڈاکٹر کو عدالت میں پیش کیاجائے ۔‘‘

وکیل صفائی: ’’ہاں ! جیسا کہ ہمارے مؤکل نے آپ پر الزام لگایا کہ آپ بھی چور ہیں۔ تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی بھی کوئی مجبوری ہے جو آپ نے ایسی حرکت کی ؟‘‘

ڈاکٹر اچانک ا پنے اوپر عائد الزام کو برداشت نہ کرسکا اور بناسوچے سمجھے بے ساختہ بول پڑا:
’’ جی جناب!دراصل بات یہ ہے کہ میرے گھروالے مجھے ڈاکٹر دیکھنا چاہتے تھے ۔انھوں نے مجھ پر کئی لاکھ روپے خرچ کیے ۔ ‘‘

وکیل :’’توکیا ان مریضوں کا خون چوس کرپیسا وصول کریںگے؟‘‘ اس پر قہقوں سے عدالت گونج اٹھی۔
ڈاکٹر:’’ کیا مریض کا علاج کرنے کے بعد معاوضہ لینا جرم ہے؟اور جب تک میرا یہ جرم ثابت نہ ہوجائے مجھے مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘مگر اس چورنے تومیرے ان روپیوں کو اڑالے جانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے کون سی تعلیم حاصل کی تھی ، جاہل کہیں کا۔‘‘

جاہل کا طعنہ سن کر ملزم چورجھلایا:
’’ جب ہمیں پڑھ لکھ کر مجرم ہی بننا تھا تو اس سے بہتر تھاکہ میں جاہل رہا، میںکسی کی زندگی کوداؤ پر لگا کر اس کے جذبات کی قیمت تو نہیں وصول کرتا۔ معاوضہ لینا جرم نہیں بلکہ جرم مریض کو لوٹنا ہے، جو میں پہلے بتا چکاہوں۔

ٹھیک ہے میں چور ہوں اور اس نام کے ساتھ گالیاں سن کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر تا ہوں۔ مگر میں آپ جیسامہذب مجرم نہیں ، جو لوگوں کی زندگی سے کھیلتا اور اسے لوٹتا ہے اور نہ میں ان مجرموں کی طرح ہوںجو ملاوٹ کرکے دو کا دس بنا کر عالیشا ن زندگی جیتے ہیںاور معاشرے میں باعزت صاحب سمجھے جاتے ہوں۔‘‘

چور اور ڈاکٹر کی اس زور دار کی بحث سے عدالت میں شور ہونے لگا۔مجبوراً جج صاحب نے اپنا لکڑی کا ہتھوڑابجاتے ہوئے بولے: آڈر … آڈر ! جب تک کسی سے کچھ نہ پوچھا جائے وہ خاموش رہے۔ وکیل صاحب آپ اپنی جرح جاری رکھیں۔

ڈاکٹر کے وکیل نے ملزم رمیش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ہاں تو تم اقرار کرتے ہو کہ تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر چوری کی ہے ؟کیوں کہ چوکیدار نے تم کو گھر سے بھاگتے ہوئے پکڑا ہے۔‘‘لہذا تم پر جرم ثابت ہوتا ہے۔‘‘

 اس پر ملزم نے جواب دیا:
’’ مجھ جیسے جاہل انپڑھ کو چور اچکا کہہ آپ لوگ بڑے فخر کرتے ہیں مگر آپ ہی بتایے کہ انھیں ڈاکٹر صاحب کو کیا کہیں جواپنی چارسوبیسی سے مریضوں کو لوٹتا ۔میں مانتا ہوں کہ بنا ثبوت کوئی مجرم نہیں ہے۔ توممکن ہے، کل ہمارے خلاف بھی کوئی ثبوت نہ ہو۔ عدالت کا فیصلہ مجھے منظور ہے۔‘‘


Mujrim Published by Umang Sunday


٭٭٭

Wednesday 8 February 2017

Bahmi Razamandi Buraye ke liye Jawaz Nahi

باہمی رضا مندی برائی کیلئے جواز نہیں

رب کائنات نے انسان کو وجودبخشاتو اس کی تمام بنیادی ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے انتظامات کئے ۔ رہی بات جنسی خواہش کی تو یہ صرف ایک انسانی ضرورت نہیں بلکہ سماج کی تعمیر و تشکیل کا ذریعہ بھی ہے، اس کے لئے حیوانوں جیسا غیر مہذب طریقہ نہیں بتایا بلکہ سماج کے سامنے دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول اور نکاح کا طریقہ بتایا۔ اس کے بعد میاں بیوی کی ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داریاں مقرر کردیں۔ مردوں کوقوی اورمضبوط بناکرانھیں صنف نازک کی حفاظت و کفالت کی ذمہ داری دی۔تو بیویوں کو بچوں کی پرورش اور دیگر گھریلو ذمہ داریاں دیں۔ پھران دونوںکوبے راہ روی سے بچنے کے لیے کچھ معاشرتی واخلاقی ضابطے بھی عطاکئے ،جن کے دائرے میں رہ کر وہ اپنی مشترکہ کوششوں سے صالح معاشرے کو پروان چڑھائیں تاکہ امن وامان کی فضاعام ہو اورترقی کی راہیں ہموارہوں۔ مگرانسان جب ان قدرتی ضابطوں،فطری اقدار اورمعاشرتی اُصولوں سے بالاتر ہوکرصرف اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسرکرنے لگا توہ نہ صرف خود مشکلات سے دوچارہوا بلکہ وہ دوسروںکے لیے بھی باعث مصیبت بن کر معاشرے کی تباہی وبربادی کا سبب بنا۔

مثلاًانسان کی ایک بنیادی ضرورت جنسی خواہش کی تکمیل ہے۔اس کے لیے الٰہی ضابطوںکوبالائے طاق رکھ کر زناوبدکاری کی راہ اختیارکرنا پھراس کے جوازمیں باہمی رضامندی اورمرضی کو دلیل بنا کرپیش کرنا،جو معاشرے کا ایک ناسوربن گیاہے۔ جب کہ پرامن معاشرے کی بقاوتحفظ اورتعمیروتشکیل کا صرف مذکورہ ضابطوں پر عمل کرنے میںہی مضمر ہے۔ بے راہ روی کے اس ماحول نے ان بہت سی ان لڑکیوںاورخواتین کو بھی اپنی زدمیں لے لیاہے جو پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہیں اورمعاشرے کو اپنی صلاحیتوں اور کردار سے فائدہ  پہنچاناچاہتی ہیں۔مگروہ پراگندہ معاشرے کی شکارہوکراپنی قدریں فراموش کردیتی ہے یا ہوس پرست گروہ کا شکارہوکر تباہ وبربادہوجاتی ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زنابالرضا جسے سماج اور قانون نے لیوان ریلیشن شپ کا نام دے کر جواز تو فراہم کردیا ہے لیکن حقیقت میں وہ زنابالجبرسے بھی زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ  وہ بہ آسانی چوردروازے سے معاشرے کو اپنی زد میں لے لیتاہے پھروہی طریقہ رائج ہوکر زنا بالجبرکی راہ ہموارکردیتاہے۔ اس سے اس کی سنگینی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ اسلام کے احکام کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے ہراس طریقے کو ناپسنداورجرم قرار دیا ہے جس سے انسانیت کا نقصان ہو اور معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجائے۔ خواہ انسان وہ حرکت اپنی مرضی اورباہمی رضامندی سے ہی کیوںنہ کرے۔اسی لیے اسلام نے انسان کو اپنی مرضی کانہیںبلکہ احکام الٰہی کا پابندبنایا ہے اور کہا ہے کہ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔

بدکاری  کی قباحت
رشتہ ازدواج(نکاح ،شادی)کے بغیر مردوزن کا باہمی جنسی خواہش کی تکمیل کرنا، خواہ رضامندی کے ذریعے ہو یا بالجبر ’زنا‘ کہلائے گا۔جسے شریعت نے کھلی بے حیائی اورجرم قراردیاہے۔البتہ جس پر جبرکیاگیاہے وہ قابل گرفت نہ ہوگا ۔زناکی قباحت اورحرمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشادہے: ’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی) ہے۔اوربڑاہی برا راستہ ہے۔‘‘(بنی اسرائیل :۳۲)

اس آیت میں انسانوںکوزنا کے محرکات سے بھی دورہنے کا حکم دیاگیاہے۔ چہ جائے کہ اس فعل بدکا ارتکاب کیاجائے ۔اسی لیے اسلام اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفتگو، اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکیدکرتاہے،کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کوزنااورفحش کاری تک پہنچادیتے ہیں۔رضامندی سے انجام دی جانے والی یہ برائیاں انسان کو جبرتک بھی پہنچادیتی ہیں۔

جس طرح خوبصورت پیکٹ میں کوئی بری اورگندی چیز رکھ دی جائے تواس سے اس کی حیثیت نہیں بڑھ جاتی ۔اسی طرح مرضی اورباہمی رضامندی سے کسی جرم کا ارتکاب کرنے سے وہ درست اورقابل تعریف عمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے وطن عزیز میں کچھ لوگوںکا مانناہے جسے حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ باہمی رضامندی سے اگر جنسی عمل انجام دیاجائے تووہ جرم نہیں ہے۔دلیل کے طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ دوافراد کی رضامندی سے دوسروں کوکیاپریشانی ہے؟

 غورکرنے کی بات ہے کہ محض رضامندی کودلیل مان کرکیا کوئی جرم سرانجام دیا سکتاہے؟ اگرجواب اثابت میں ہو توپھر انسان بہت سی مشکلات میں مبتلاہوجائے گا اور انسانی زندگی تباہ وبربادہوجائے گی۔اس بات کوسمجھنے اورسمجھانے کے لیے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں:

ایک کشتی جودریا کے درمیان ہو اوراس میں کوئی معمولی سوراخ ہوجائے جس کو بند کرنا بہت زیادہ مشکل نہ ہوتواس پر سوارلوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سوراخ کو بند کرنا بہت ضروری ہوتاہے ۔اگرکوئی اسے بندنہ کرے ،بلکہ اس پر سوارمسافروں میں سے دواشخاص یہ کہیں کہ ہم دونوں نے باہمی رضامندی کے ساتھ اس میں سوراخ کیاہے۔اس لیے کسی کو بند کرنے کی اجازت نہیں ہے اورنہ کسی کوکچھ کہنے کا حق ہے ۔توکیا اس کی مرضی پر روک لگانے کے بجائے سارے لوگ ڈوبنے کے لیے تیارہوجائیں گے؟ نہیں ! بلکہ معمولی درجہ کاعقل رکھنے والا بھی ان دونوںکی مزاحمت کرے گااورسوراخ کو بند کرنے کی کوشش کرے گا۔

      اسی طرح ہم لوگ ریل یادیگر سواریوں پر سفرکرتے ہیںجس کے لیے ٹکٹ خریدتے ہیں ، اگرکوئی شخص بناٹکٹ کا سفرکرے اوریہ دلیل دے کہ میں نے ٹی ٹی سے سیٹنگ کرلی ہے،تودیگرمسافروں یا محکمہ ریلوے کو کیاپریشانی ہے تو کیا اس کی یہ بات قابل تسلیم ہے اور اس کایہ عمل جرم نہیں ماناجائے گا؟ اگرنہیں! توپھرآج سے ہی تمام لوگوںکو رضا مندی کے انوکھے طریقے کے ساتھ  بلاٹکٹ سفرکی اجازت مل جانی چاہیے ،ایسے میں کیا محکمہ ریل یا محکمہ نقل وحمل (ٹرانسپورٹ) چل سکے گا،اس کے اخراجات پورے ہوسکیں گے؟ یہ تو ایک محکمہ کا نظام ہے جو مذکورہ اُصول پر نہیں چل سکتا تو پورے معاشرے کا نظام محض دوافراد کی رضامندی سے کیسے چل سکتاہے۔

 آج خودپسندی اوراپنی مرضی کی پیروی نے انسانوںکوتباہی کے ایسے دہانے پر لاکھڑاکیاہے کہ ان کے دل سے احساس جرم نکل چکاہے ،معاشرے کی بقاوتحفظ کی باتوں سے ان کی آزادی میں رکاوٹ محسوس کی جانے لگی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اچھاکام کرے اوربرے کام سے بچے ،یہی وجہ ہے کہ اسے خوشبوسے پیار اوربدبوسے نفرت ہوتی ہے۔ معاشرے میں کوئی شخص گندگی پھیلائے یا کوئی جانور کومار کر اپنے ہی دروازے کے سامنے رکھے ،جس سے کہ بدبو ہو اورتعفن پھیل جائے اور تنبیہ کرنے پر وہ کہے کہ یہ میری مرضی میں جیسے چاہوں رہوں جو چاہوںکروں تمہارے گھرمیں تومیں نے گندگی نہیں ڈالی ، پھرتمہیں کیا پریشانی ہے۔ توکیا اس کی یہ دلیل قابل قبول ہوگی اوراسے یونہی چھوڑدیاجائے گا ؟ ٹھیک اسی طرح باہمی رضا مندی سے قائم کیاگیا جنسی تعلق محض دوانسانوںکا عمل نہیں ہے یا اس میں صرف دولوگوںکی مرضی پر بدکاری کوفروغ حاصل نہیں ہوگا بلکہ جب یہ وبا عام ہوگی توپھرجبروتشدد کی کیفیت کو جنم دے گی، اس کے  نتیجے میں انسانیت کا خاتمہ ہوجائے گااور معاشرہ بدامنی کا شکارہوجائے گا، موجودہ دورمیں اس کامشاہدہ ہم اپنی کھلی آنکھوں سے کرسکتے ہیں۔ آج خواتین کی عصمت دری اوران کے قتل کے واقعات نے بھیانک شکل اختیارکرلی ہے ،ظاہر ہے یہ سب اچانک نہیں ہوگیابلکہ غلط طریقوں اور فحاشی کے فروغ نے ایسا ماحول بنادیاکہ معاشرے کی کشتی میں نہ صرف سوراخ ہوگیاہے بلکہ تیزی سے اس میں پانی بھررہا ہے۔پھربھی لوگ بدکاری کے محرکات واسباب پر گرفت کرنے کے بجائے اس کی وکالت کرتے ہیں۔ اس قسم کے منچلے ہوس پرست لوگوںکی گرفت کرنے کے بجائے انھیں مزیدکھلی آزادی دی جارہی ہے اور قانونی تحفظ فراہم کرکے بے حیائی کے محرکات کو فروغ دیاجارہاہے۔ ان حالات میں نہ صرف سماج کاشیرازہ منتشرہوگا بلکہ ملک تیزی سے زوال کی راہ پر جائے گا۔

بدکاری کے اثرات
اگراس فعل بدکی روک تھام نہ کی گئی تو وہ بھیانک شکل اختیارکربیٹھے گا پھرمعاشرے پر اس کے بدترین اثرات پڑیںگے۔چنانچہ ایڈس جیسی خطرناک بیماری ،غریبی اوربھک مری کی کیفیات اسی سے پیداہوتی ہیں ان پر غور کیا جاسکتاہے۔آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل نبی رحمتؐ نے اس فعل بد کے نقصانات اوراثرات سے متنبہ کردیاتھا۔اس کی قباحت بیان کرتے ہوئے آپ ؐ  نے ارشادفرمایاتھا:
 ’’جس قوم میں زناکاری اورسودخوری عام ہوجائے گی اس میں اللہ کا عذاب آنا لازمی ہے۔‘‘(شعب الایمان للبیہقی(

ایک جگہ اورارشادہے:
 ’’جس قوم میں علانیہ فحش کاری کا بازارگرم ہوجائے اس میں طاعون اورایسی بیماریاں عام ہوجائیں گی  جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔‘‘(ابن ماجۃ)

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ نے مسلمانوں کو اس فحش کاری سے ڈراتے ہوئے دنیا و آخرت میں اس کے انجام بد سے آگاہ کیاتھا۔ آپؐ کا ارشادہے: اے مسلمانوں کی جماعت زنا سے بچو، اس لیے کہ اس(کے نتیجے) میں چھ خصلتیں ملتی ہیں تین دنیا میں اور تین آخرت میں، رہیں تین دنیاوی پریشانیاں: وہ ہیں چہرے کی رونق ختم ہونا، مسلسل فقراور عمر کی تنگی اوراس سے آخرت میں لاحق ہونے والی تین پریشانیاں یہ ہیں: اللہ تعالی کی ناراضی، بدترین مواخذہ اور جہنم میں داخلہ۔(شعب الایمان للبیہقی،ذم الہوی لابن جوزی(


خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب انسان اس قدرتی نظام معاشرت سے بغاوت کرتے ہوئے من چاہی زندگی بسرکرے گا تواسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،جوکوئی قدرت  کے نظام حیات سے انحراف کرتے ہوئے ، خودساختہ طریقہ ایجادکرے گا تو وہ نت نئے مسائل سے دوچارہوگا،اگراس پر روک نہ لگائی گئی توپورا معاشرہ تباہی و بربادی کے سمندرمیں غرق ہوجائے گا اورکوئی اسے بچانے والا نہ ہوگا۔ll     

Urdu Short Story: Bebasi ka Karb

کہانی :

بے بسی کا کرب


       مہینے کی پہلی تاریخ تھی۔ میں بہت خوش تھا۔ عصر کی نماز سے فارغ ہوکر تیزی سے دفتر گیا، جلدی جلدی کام کیا اوربقیہ کام کو پنڈنگ فائل میں ڈال کر باس سے اجازت لی اور دفتر سے باہر نکل آیا۔ بازار پہنچ کر سبزیاں لیںپھر ایک مٹھائی کی دکان سے سموسے اورمٹھائی لی اور گھر کی طرف چل پڑا۔

گھرپہنچتے ہی بچوں نے اسے دیکھ کر شور مچانا شروع کردیا: ’’ابوآگئے! ابوآگئے!!‘‘
رضیہ نے سبزی کی تھیلی میرے ہاتھ سے لے کر ایک طرف رکھ دی۔
میں نے اس سے کہا:’’پلیٹ لاؤ اور سنو،ایک اچھی سی چائے بنانا۔‘‘
بچے پلیٹ کے اردگرد بیٹھ گئے ۔

 تبھی عامرنے جلدی سے مٹھائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ایک رسگلہ اٹھا لیا، جس سے رس ٹپک رہاتھا۔
میں نے کہا: ’’رکوبیٹا…!‘‘ پھر اس کی گردن میں اپنا رومال باندھ دیا تاکہ اس کے کپڑے خراب نہ ہوں۔
 پھر کہا : ’’چلواب بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ ۔‘‘

اتنے میں رضیہ ٹرے میں چائے لیے ہوئے آگئی۔

بچوں کو اس طرح جلدی جلدی کھاتادیکھ میں نے کہا:’’رضّوآج مجھے ابو یاد آرہے ہیں۔ پتہ نہیں، وہ کس حال میں ہوںگے۔ جانتی ہو، جب ہم عامر کی طرح تھے تو میرے ابوروزانہ ہم لوگوں کے لیے مٹھائیاںلاتے،خوب کھلاتے اورجب ہم گھومنے جاتے تو ہمارے لیے من پسند  چیزیں بھی خرید دیتے تھے۔ہم لوگوں کو کبھی مایوس دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔آج میں پڑھ لکھ کر نوکری کے قابل ہوگیا ہوں اورچاہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ رہیںاور اپنی شراب کی گندی عادت کو چھوڑدیںمگر وہ میری بات نہیں مانتے ۔ ان کی یہ عادت ہم سب کی پریشانی کا باعث بن گئی ہے۔ جس شخص نیمیں زندگی بھر ہم لوگوں کے لیے سب کچھ کیا،آج میں اتنا بے بس ہوں کہ چاہ کر بھی ان کے لیے کچھ نہیں کرپارہاہوں۔‘‘

باتوںباتوںمیں ہیمغرب کا وقت ہوگیا میںنے رضیہ سے کہا: ’’بچوں کو سنبھالو اورنماز کی تیاری کرو۔ بس مسجدسے نماز پڑھ کرآرہاہوں۔‘‘

یونہی دن گزرتے رہے ۔ میں کے دوبچے اورایک بچی تھی جو اب بڑے ہونے لگے تھے۔ اس کی آمدنی یوں تو کچھ خاص نہیں تھی،مگر پھر بھی کسی طرح گزر اوقات ہورہی تھی۔بچے ایک اسکول میں پڑھنے جاتے تھے ۔ وہ  پیسے بچا کر رضیہ کوبنابتائے اپنی والدہ کے نام گھر بھیج دیتاتھا۔

ایک دن بچوں نے ضدکی کہ وہ میلے میں گھومنے جائیںگے۔ میںنے منع کیا مگر جب بچوں نے ایک نہ مانی ، تب میں نے رضیہ سے پوچھا:
’’کچھ پیسے جمع ہوں تو دو؟میں تمھیں بعد میں واپس کردوںگا۔ بچوںکو گھمانے لے جانا ضروری ہے‘‘۔

پھر اس نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کیا۔
’’رضو!جانتی ہو،ایک بار ابو ہم سب کو لے کر ڈزنی لینڈ (مختلف مقامات پر لگنے والا بڑا میلہ) گھمانے لے گئے تھے۔ وہاں ہم لوگ بڑے بڑے جھولوں پر جھولے ،آئس کریم کھائی، ہوا مٹھائی بھی خریدی،بہت سے کھلونے بھی خریدے ۔ سب نے اپنی اپنی پسند کی چیزیں لی تھیں۔ مگرمیں کیا کروں، میرے پاس اتنے پیسہ نہیں ہے کہ میں بچوںکو وہ سب کچھ دے سکوں جو مجھے میرے ابونے دیاتھا۔ تمہیں وہ چیزیں خرید کر دو جوتمھیں پسند آئے۔ آج پھر مجھے ان کی جدائی کا کرب ستارہاہے۔اب بھی وہ اپنی گندی عادت چھوڑدیں اورہمارے ساتھ رہنے کو تیار ہوجائیںتو یہ بات میرے لیے تمام خوشیوں سے زیادہ بڑھ کرہوگی۔‘‘

تبھی عامر جوتے کے فیتے باند ھتے ہوئے بولا: ’’ابو! ہم تیار ہوگئے‘‘۔
ناصر بھی کچھ کہنا چاہ رہاتھا کہ سارہ اپنی توتلی آواز میں بولی: ’’ابوتلونا۔۔ دلدی تلونا!‘‘
اتوار کا دن تھا۔ میں گھر پر ہی تھا کہ دروازے پر ایک مانگنے والی عورت آئی، جس کے ساتھ دوبچے تھے۔ حسب معمول رضیہ نے پوچھا : ’’کیابات ہے ؟ ‘‘

مانگنے والی خاتون نے کہا: بھوک لگی ہے، اگر کچھ کھانا اور ان بچوںکے لیے پرانا کپڑاہو تو دے دو،بڑی مہربانی ہوگی۔
رضیہ نے کہا: ’’ٹھیک ہے کھانا میں دے دیتی ہوں،مگرکپڑے میرے پاس نہیں ہیں،کہیں اور سے مانگ لو‘‘۔
تبھی میںنے کہا:’’ارے رضو، عامر اور ناصرکے پرانے کپڑے اسے آجائیںگے وہ دے دو۔ان کے پاس تو اوربھی کپڑے ہیں۔‘‘ پھر رضونے بہ مشکل اسے وہ کپڑے اسے دے دیے۔

گھنٹے دوگھنٹے گزرے ہوںگے کہ مانگنے والی ایک اور خاتون آئی ،جو رو رو کر فریاد کر رہی تھی : ’’ہم لوگ غریب ہیں، بچی کی شادی کرنی ہے، تھوڑی بہت امداد ہوجائے تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘
رضونے کہا:’’ اب میں اسے کیا دوں؟‘‘
 تب میں نے کہا:’’ا سے سو روپے دے دو۔‘‘

اس پر رضیہ جھنجھلاکر بولی:’’ آپ کی یہ عادت ٹھیک نہیںہے۔ ایک تو میں ضرورت کے سامان کم کرکے بہ مشکل 10روپے 20روپے جمع کرتی ہوںاور آپ آئے دن ان میں سے کسی نہ کسی کو دلوادیتے ہیں۔ آخرہماری بھی تو ایک بیٹی ہے ، ہمیں بھی تواس کی شادی کرنی ہے۔ تمہارے ابوبڑے دانی تھے ،جوکچھ کمایا، سب کچھ لٹادیا،کیا ملاان کو؟ اب ایسی عادت میں پھنسے ہیں کہ کوئی ان کو اپنے ساتھ نہیں رکھتا۔‘‘

رضیہ کی یہ باتیں سن کر مجھے زورکا جھٹکا لگا، گویاکسی نے اس کے منھ پر زنّاٹے دار طماچہ رسید کیا ہو۔اسی وقت یہیں سے اس نے طے کرلیا کہ وہ اپنے بچوں اور بھائیوں کی ایسی نگرانی کرے گا کہ گندی عادتیں انھیں چھوبھی نہ سکیں۔
ارے، یہ کس کا سامان ہے ،نکالو! چلو چلو، آگے بڑھتے رہوبھائی۔اس شور و غل نے مجھے نیندسے جگادیا۔
رضیہ نے بھی اس کی نیند پر کہا:’’ اب اٹھیے بھی کتنا سوتے ہیں آپ ! اور یہ نیند میں آپ کیا بڑ بڑا رہے تھے؟‘‘
میں نے جواب دینے سے قبل کھڑکی سے جھانکا اور کہایہ تو نئی دہلی اسٹیشن ہے!تب اسے پتا چلا کہ وہ خواب دیکھ رہاتھا۔ پھر رضیہ سے کہا: ’’رضو! لوگ خواب میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں مگر میں اپنا ماضی دیکھ رہا تھا۔‘‘

اتنے میں اچانک عامر اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور کہا :’’ چلئے ابو، گھر چلیں،وہیں ظہر کی نماز پڑھیں گے۔ آپ کے پوتے اکرم اورانورآپ کابے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔‘‘
عامر کی بات ختم ہوتے ہی خالد نے کہا : ’’مگرناصر نہیں آیا؟‘‘
عامر:’’ابووہ کمپنی ویزاپر ابوظبی گھومنے گیاہے۔میں آپ کو فون پر بتانا بھول گیا تھا۔‘‘

تبھی عامر ایک شخص کو سگریٹ پیتا دیکھ بولا: ’’ ارے بھائی ،اپنے گھر جاکر پینا، کیوںاپنی اور دوسروں کی صحت کو خراب کررہے ہو۔‘‘

یہ جملہ سن کر خالد کو یقین ہوگیاکہ اس کی، بچپن کی تربیت میں کوئی کمی نہیں رہی۔ سب اسٹیشن سے باہر آئے ، اپنی کار  میں بیٹھے اور گھر کا رخ کیا۔


عامر نے حفظ کرنے کے بعد عصری تعلیم حاصل کی ۔بی ٹیک کے بعدوہ ایک بڑی کنٹرکشن کمپنی کا ایکزیکٹیو ڈائریکٹر بن گیاتھا۔ ناصر بھی ایم بی اے کرکے ایک مشہورکمپنی کا مینیجنگ ڈائرکٹر بن گیا تھا، جب کہ سارہ نے اردواور انگریزی سے ڈبل ایم اے کیا پھر اس کی شادی ایک عالم دین سے ہوئی ، جس کا کپڑوںکا بہت بڑا کاروبارتھا۔

Bebasi ka karb Inqulab Mumbai 18 July 2013


Sunday 5 February 2017

Fareeb - Urdu Short Stori

کہانی:
فریب

کیوں جی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کیا سوچ رہے ہیں۔ میں  پوتے کے پاس جار ہی ذرا دیکھوں کیوں رو رہاہے۔ ٹھیک ہے سدو (سعدیہ) جاؤ! مگر جلدی آنا!!

پھراس نے ٹیبل پررکھے ماچس سے سگریٹ جلایا اور کش لیتے ہوئییادوں کے سمندر میں غرق ہو گیا۔
25سال گزرگئے جب سدو دلہن بن کر گھر  آئی تھی۔ آج بھی میں اس واقعہ کو نہیں بھول پایا۔ سسرال والے ہمیشہ میرے عتاب کا شکار رہتے تھے اور میں من موجی، جو جی میں آیا کرتا گیا۔
لیکن وہ حسین خوبصورت پری جس کا چہرہ ہر دم میری نگاہوں کے سامنے گھومتا رہتا تھا۔گزرتے وقت کے ساتھ کہیں کھو گیا۔

میں بہت خوش تھا ، خوشی کی بات ہی تھی۔ میری شادی جو ہورہی تھی۔ لڑکی گاو?ں سے کچھ فاصلے پردوسرے گاو?ں کی تھی جسے میں اپنے والد صاحب اور کچھ کچھ دوستوں کے ساتھ جا کر دیکھا بھی تھا۔ لمبا قد ،صراحی دار گردن، آنکھیں بڑی بڑی، چہرہ کتابی ، رنگ بالکل صاف کل ملاکر وہ بہت خوبصورت تھی۔خاندان اور گھر گھرانہ بھی اچھا تھا۔

گھر میں سب لوگ خوش تھے ابا جان نے کچھ لوگوں سے بطور مہمان جن میں کچھ میرے دوست بھی تھے، شادی کی اس تقریب میں شرکت کے لیے دعوت دی تھی۔ابا جان مہمانوں کے استقبال میں کھڑے تھے اور گھروالوں سے جلدی تیار ہونے کے لیے کہہ رہے تھے۔

میرے سامنے ہر وقت اسی کا چہراگھومتا رہتا تھا، فون کا زمانہ تو تھا نہیں کہ فون کرتا جیسا کہ اس دور میں ہو رہا ہے۔

بارات لڑکی والوں کے دروازے پر پہنچ گئی۔مختصرضیافت کے بعد نکاح کی کارروائی شروع ہوئی۔قاضی صاحب کے سامنے میں خاموش بت کی طرح بیٹھا رہا وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا کیا پڑھا گیا۔ مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چلا اچانک جب قاضی صاحب نے پوچھا کہ آپ نے قبول کیا۔

خیالوں کا سلسلہ منقطع ہو گیااورمیںبے ساختہ بول گیا:’’ ہاں ہاں میں نے قبول کیا۔‘‘
لوگوں کو تھوڑی حیرانی ہوئی کہ سب شرم سے پست آواز میں بولتے ہیں یہ تو عجیب لڑکا ہے۔ مگر کوئی کیا کہہ سکتا تھا بات صحیح تھی ،بولنا تو تھا ہی ذرا زور سے بول گیا۔

نکاح کے بعد مجھے زنان خانہ میں بلایا گیا ، میں نے سوچا ممکن ہے کہیں گھر میں مجھے اسے دیکھنے کا موقع ملے کہ دلہن کے جوڑے میں وہ کیسی دکھتی ہے مگر وہی پرانی بات مجھے وہاں دیکھنے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ کیوں کہ ایسی کوئی رسم بھی نہیں تھی۔خیر دل کو منا لیا اور اسے بہلاتے ہوئے کچھ تسلی دی ارے اتنا بے تاولا کیوں ہوتا ہے کہ شام میں تو وہ تیرے پاس ہی ہوگی۔ پھر جی بھر کے دیکھنا۔دل بے چارہ مان گیا۔پھرتھوڑی بہت شیرنی وغیرہ کھائی پھر دوستوں کیساتھ ہم گھر سے باہر چلے آئے۔
رخصتی کے بعد ہم لوگ اپنے گھر آگئے۔

ادھر میرا گھر سجایا جا چکا تھا مٹی کے کچے مکان میں سب کچھ سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔ ایک پلنگ پر دلہن کی سیج سجائی گئی ، پھول گل سے سارا گھرخوبصورت لگ رہا تھا۔ اندھیرا سا ہونے لگا تھا۔مگر دل میں خوشی کا دیا روشن تھا۔

عورتوں نے دلہن کا پرتپاک استقبال کیا اور اسے گھر کے اندر آنگن میں لے گئیں۔ بہت سی خواتین وہاں جمع تھیں، رونمائی کی رسم کے بعد رخصت ہونے لگیں۔اس وقت تک میرا داخلہ ممنوع تھا۔ تقریباً دس بجے میں مجلہ عروسی میں داخل ہوا۔

اور دروازہ بند کیا ہی تھا کہ کھٹکھٹاہٹ کی آواز آئی میں نے پوچھا کون؟ ادھر سے میری بھابی بولی! دیور جی میں ہوں! دروازہ کھولو یہ دودھ کا گلاس یہیں رہ گیا۔ خیر میں نے دروازہ کھولا اور اس سے شرارتی انداز میں کہا آپ بھی نہ۔ یہ سب پہلے سے رکھ دیتیں۔ ارے دیور جی اتنی بے چینی کیا ہے ، بٹیا اب یہیں رہیں گی، ٹھیک اب آپ جائیںگی بھی یا یوں ہی وقت برباد کریں گی۔ یہ کہتے ہوئے میں نے دروازہ پھر سے بند کر دیا اور پلنگ پر اس کے قریب بیٹھ گیا۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کیا بولوں ؟ کیا کہوں؟ خیر جو کچھ میرے دل میں آیا اس کی تعریف میں بول دیا۔

مگر اس کی طرف سے کوئی آواز نہ آئی۔ میں نے کہا دیکھو اب جلدی سے مجھے اپنا خوبصورت اور چاند سا چہرہ دکھا دو میں اب اور صبر نہیں کر سکتا؟ پھر بھی کوئی آواز نہ آئی تو پھر میں نے کہا : ’’ٹھیک ہے اب مجھے ہی کچھ کر نا پڑے گا‘‘ اور میں نے اس کے چہرے سے گھونگھٹ اٹھادیا۔

نظر پڑتے ہی میرے پاؤں سے زمین کھسک گئی، میں اپنے ہوش گنوا بیٹھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب میں کیا کروں۔

’’کیا بات ہے؟ آپ کچھ پریشان سے ہیں؟‘‘ اس نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے، تم فکر نہ کرو۔‘‘میں نے اس کا جواب دیا۔
’’بات تو کچھ ضرور ہے؟ آپ چھپارہے ہیں؟‘‘
میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:’’کوئی بات نہیں صرف سردردہے۔‘‘
’’لائیے میں دبا دیتی ہوں۔‘‘اس نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ نہیں نہیں مجھے زیادہ درد ہو رہا ہے دبانے سے ٹھیک نہیں ہوگا دوا لینی ہی ہوگی ‘‘اور یہ کہہ کر میں گھر کے باہر چلا آیا۔

باہر دیکھا سب لوگ گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔چھپ کر میں ندی کے کنارے جا بیٹھا۔’’یہ کیسے ہوا…؟ یہ تو سراسر فریب ہے۔ ‘‘
’’اتنی رات گئے تو یہاں کیا کر رہا ہے؟‘‘اچانک میرے دوست نے مجھے ٹوکا۔
’’یارابا کے ساتھ تو بھی تو تھا؟کیسی تھی؟پھر یہ کیا:اتنا بڑا دھوکا؟ لڑکی دکھائی گئی اورنکاح کسی دوسری کے ساتھ۔یہ شادی نہیں میری بربادی ہے۔ ‘‘

شاہد : ارے یار ذرا صبر سے کام لے۔
میں نے کہا:نہیں یارمیں کل ہی ابا سے بات کروں گا،اور لڑکی والوں کو بلا کر اس کی لڑکی واپس کروںگا۔ ان لوگوں نے میرے ساتھ نہایت بھدا مذاق کیا ہے۔
تبھی میرادوسرا دوست خالدبھی وہاں آگیااوربولا :
’’ ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے!لڑکی وہ نہیں ہے دوسری ہی سہی اچھی بھلی تو ہے نہ۔  اور ہاں! تم نے اسے کچھ کہا تو نہیں؟
’’نہیں ! میں نے اسے کچھ نہیں بتایا۔سردرد کا بہانا بناکر چلا آیا ہوں۔‘‘

خالد نے کہا :’’ہاں! یہ تو نے اچھا کیا؟اس سے بتانا بھی مت۔اب شادی ہو گئی تو ہوگئی۔ بھلے ہی اس کے ماں باپ نے غلطی کی ہو پر اس میں اس لڑکی کا کیا قصور تم اسے واپس کر دوگے۔ اس سے اس کی بدنامی نہیں ہوگی۔ پھر کون اس سے شادی کرے گا۔ پھر وہ زندگی بھر ایسے ہی رہے گی۔ اپنے لیے نہیں اس کے لیے سوچ۔ جو اپنے گھر ، خاندان سے رخصت ہو کرتیرے گھر اپنی زندگی کی خوشیاں بٹورنے آئی ہے۔
’’وہ خوشیاں بٹورنے آئی ہے میری خوشیوں کا کیا؟‘‘خالد میری بات سن کر خاموش ہوگیا۔

میں نے بھی سوچااس کی بات تو ٹھیک ہے،مگرمیں کیسے بھول جاتا، وہ لڑکی، اس کی خوبصورتی ،اس کی بڑی بڑی چمکتی آنکھیں میری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی تھی۔

میرے لاکھ انکار اور احتجاج کے بعدجب کچھ نہ بن پڑا اوردوستوں کی باتیں سن کر مایوس ایک لٹے ہوئے مسافر کی طرح  اپنے گھر لوٹ آیا۔ دیکھا محترمہ سوئی ہوئی ہیں۔ 3بج رہے تھے۔میں بھی اپنا تکیہ لیے ہوئے الگ ایک طرف سوگیا۔

کچھ سال بعد جب قریب کے گاؤں سے خبر آئی کہ ایک عورت نے اپنے شورہر کا قتل کردیا اوراپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ وہی لڑکی تھی جس سے اس کی شادی ہونی تھی جس کی خوبصورتی پر وہ دیوانہ تھا۔اس وقت اس کے سرپر بجلی سی کوندگئی ارے یہ کیا ہوا ، تب اسے احساس ہوا حسن صورت ہو نہ ہو حسنِ سیرت ضروری ہے۔اس دھوکہ پر خدا کا شکر ادا کیا۔
اٹھو جی !یہ کیا؟ سامنے بستر لگا ہوا ہے اور آپ سگریٹ لیے ہوئے کرسی پر سو رہے ہیں۔
میں ہڑبڑا کر نید ہی بولا:’’ سدو تم بہت اچھی ہو۔ ‘‘

’’ہاں ہاں! اب زیادہ تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ یہ بات کئی بار بول چکے ہیں۔‘‘اب چلیے بستر پر لیٹ جائیے میں آپ کے پاؤں دبادیتی ہوں۔!!

Fareeb Roznama Rastriye Sahara


Saturday 4 February 2017

Urdu Short Story: Dagmagahat


کشتی ٔحیات کی ڈگمگاہٹ


                                             محمدمحب اللہ
       ’’مجھے میرے حال پر چھوڑدو، کون کہتاہے ، میں غریب ہوں، میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں غریب نہیں ہوں!…… لوگ امیر ہوگئے ہیں۔‘‘
نشے میں چور لڑکھڑاتے اورڈگمگاتے قدموںکے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں محسن اپنے سنبھالنے والوںسے کہہ رہاتھا۔ پھربھی لوگ اسے اٹھائے ہوئے گھرلا کرچھوڑگئے ۔ نشے میں دن گزارنے والا محسن روزانہ کوئی نہ کوئی ہنگامہ آرائی کرتاجس کی آواز سن کر آس پڑوس کے لوگ اکٹھاہوجاتے۔ ایک روزتولوگ اس پر ہاتھ اٹھانے کے لیے تیارہوگئے تبھی کسی مضبوط ہاتھ نے اس کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا:
’’ تم لوگ بھول گئے ہو کہ یہ کون ہے۔یہ وہی محسن ہے ،جس کے احسان تلے دبے ہیں سب ۔حالات کیا بگڑے کے تم لوگوں نے اسے پہچاننے سے ہی انکارکردیا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے بھیڑکومنتشرکیا۔

پھروہ محسن کو اس کی ماں کے پاس رکھ کرخاموش بیٹھ گیا۔
’’زندگی کی کشتی اگرکسی بھنورمیں پھنس جائے توعقل مندی یہ ہے کہ انسان پورے عقل وشعور سے کام لے، نہ کہ کشتی کی ڈگمگاہٹ کو دیکھ کربدہواس ہوجائے ۔‘‘

 ایسے ہی بھنورمیں پھنسا میرابیٹامحسن ہے۔
یہ کہتے ہوئے اس کی ماں نے محسن کے حالات بیان کرنے شروع کردیے۔
وہ ایک پڑھا لکھا، خوبصورت،خوب سیرت ، سمجھ دار، خوددار اور باوقار انسان تھا،جونہ صرف اپنے گھر کی تمام ذمہ داریوںکوبحسن و خوبی انجام دے رہا تھا بلکہ پڑوس اور گاؤںوالوںکاخاص خیال رکھتااور ان کی ضرورتوںمیں کام آتاتھا۔اپنے اخلاق حسنہ سے اس نے لوگوںکو گرویدہ بنا لیاتھا۔

اچانک اس کی زندگی میں طوفان آیا اورپینشن پارہے شفیق والد کا سایہ سرسے اٹھ گیا اوراپنی بیوی ،بچوں کے علاوہ ماںایک بھائی اور دوبہنوں کی ذمہ داری اس کے کاندھوںپر آن پڑی۔ اللہ کے کرم سے محسن کو کانٹرکٹ بیس پر پٹنہ ہی میں ایک اچھاجاب مل گیاتھا۔
 پانچ روپے آٹا اور نوروپے چاول کے دورمیں اس کی یومیہ آمدنی پانچ سوسے سات سوروپے تک تھی۔اس آمدنی کا بیشترحصہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں اپنوں اور غریبوںپرصرف کرتاتھا۔محسن کوئی بھی تقریب کرتاتووہ اپنے گاؤں آکرہی کرتاتھا۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب محسن نے اپنی دونوںبہن اوربھائی کی شادی کردی۔اس موقعہ پر اس نے دل کھول کرخرچ کیا۔گاؤں کے لوگ اس کی نیک نیتی اور خوش مزاجی کے قائل تھے اوراسے اپنا محسن وغم گسارمانتے تھے۔
 وہ ہر کام اپنی بوڑھی ماں(میرے) مشورے سے کرتاتھا تاکہ ماں کی دل شکنی نہ ہو۔ وہ میریی کسی بھی تکلیف کو اپنے سینے میں چبھتے ہوئے کانٹے کی مانند تصور کرتا تھا۔
 اپنی بہنوںسے وہ اس قدر محبت اورپیارکرتاتھا کہ کبھی انھیں والدکی غیرموجودگی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ اس کی بہنیں بھی اسے اپنے باپ کا درجہ دیتی تھیں۔
محسن کی شادی ہو چکی تھی، بیوی نہایت شریف تھی۔محسن کی کئی اولادیں ہوچکی تھیں جس کی ذمہ داری اس کے سرپر تھی۔وقت کی ستم ظریفی کہ کانٹریکٹ منسوخ ہوجانے کے سبب وہ بے روزگار ہوگیا۔ بے روزگاری کے ڈنک سے وہ ایسا متأثرہواکہ وہ شراب کی لت لگا بیٹھا۔ وہ ہمہ وقت شراب کے نشے میں دھت رہتاتھا۔

 معاشی حالت بالکل کمزور ہو چکی تھی،اس کے خوشحال گھرانے میں مفلسی نے پوری طرح قدم جمالیاتھا۔ جس گھرسے لوگوںکی ضرورت پوری ہوتی تھی اب وہ خود محتاج ہو گیا تھا، ہمیشہ خوش رہنے والا اب بے بس و عاجز تھا، قرض داروں نے دروازے پر دستک دینی شروع کردی تھی ۔
 مجبوراً بیوی بچوں کی کفالت کے لیے وہ آٹورکشہ چلانے پر مجبور ہوگیا ، کیوں کہ اس کے پاس کوئی اور ہنرتو تھانہیں۔ اس دوران اس کی شراب نوشی دن بدن بڑھتی چلی گئی ۔ معاشرہ کا ہیرواب ہر لحاظ سے زیرو دکھائی دے رہاتھا۔

میرے نیک سیرت بیٹے کا کردار اب ماضی کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ زمین پر ایک چلتی پھرتی لاش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس کا لڑکا(میرا پوتا) اب کافی بڑا اورسمجھ دارہوگیاہے۔ اسے اپنے والد کی یہ بری عادت اس کو بہت ہی ناگوار گزرتی ،وہ بارباران کو اس بری چیز سے دوررہنے کی تلقین کرتا اور انھیں خوف خداکادرس دیتا۔ گھر والے بھی بہت سمجھاتے، مگر ساری باتیں اس پر،وقتی طور پر اثرانداز ہوتیں ، وہ آئندہ شراب کو منہ نہ لگانے کی قسمیں بھی کھاتا، مگراپنی عادت سے مجبور ہے۔

 نشہ اس پر اس قدرحاوی ہوچکاہے کہ اسے اب اپنی بوڑھی ماں سے بھی نفرت ہونے لگی ہے۔اس کی اس حرکت نے اسے معاشرے میں بالکل ذلیل انسان بنارکھاہے۔
’’جولوگ محسن کو نہیں جانتے اسے برا بھلاکہتے ہیں اور جو اس سے واقف ہیں ، اسے موجودہ حالت ترس آتاہے‘‘۔
ماں نے آنچل سے اپنے آنسوپوچھتے ہوئے کہا۔

 وہ پھر گویاہوئی’’ اس کا وجودبنا روشنی بکھیرے ہی موم کی طرح پگھل رہا ہے۔میرے محسن کی زندگی بھی اسی طرح پگھل رہی ہے جوآتش فشاں بن کر اپنے گھروالوںکواپنی لپیٹ میںلیے ہوئی ہے۔کاش یہ سنبھل جاتا!‘‘

’’اماں! آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔خدانے چاہاتو محسن علاج کے ذریعہ مکمل ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘اور وہ دونوں محسن کو رکشے پر لے کرہسپتال کی طرف چل پڑے!!

٭٭٭
Kahani - Kashtiye Hayat ki Tagmagahat (Inquilab 8-4-13)

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...