Wednesday 8 February 2017

Bahmi Razamandi Buraye ke liye Jawaz Nahi

باہمی رضا مندی برائی کیلئے جواز نہیں

رب کائنات نے انسان کو وجودبخشاتو اس کی تمام بنیادی ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے انتظامات کئے ۔ رہی بات جنسی خواہش کی تو یہ صرف ایک انسانی ضرورت نہیں بلکہ سماج کی تعمیر و تشکیل کا ذریعہ بھی ہے، اس کے لئے حیوانوں جیسا غیر مہذب طریقہ نہیں بتایا بلکہ سماج کے سامنے دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول اور نکاح کا طریقہ بتایا۔ اس کے بعد میاں بیوی کی ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داریاں مقرر کردیں۔ مردوں کوقوی اورمضبوط بناکرانھیں صنف نازک کی حفاظت و کفالت کی ذمہ داری دی۔تو بیویوں کو بچوں کی پرورش اور دیگر گھریلو ذمہ داریاں دیں۔ پھران دونوںکوبے راہ روی سے بچنے کے لیے کچھ معاشرتی واخلاقی ضابطے بھی عطاکئے ،جن کے دائرے میں رہ کر وہ اپنی مشترکہ کوششوں سے صالح معاشرے کو پروان چڑھائیں تاکہ امن وامان کی فضاعام ہو اورترقی کی راہیں ہموارہوں۔ مگرانسان جب ان قدرتی ضابطوں،فطری اقدار اورمعاشرتی اُصولوں سے بالاتر ہوکرصرف اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسرکرنے لگا توہ نہ صرف خود مشکلات سے دوچارہوا بلکہ وہ دوسروںکے لیے بھی باعث مصیبت بن کر معاشرے کی تباہی وبربادی کا سبب بنا۔

مثلاًانسان کی ایک بنیادی ضرورت جنسی خواہش کی تکمیل ہے۔اس کے لیے الٰہی ضابطوںکوبالائے طاق رکھ کر زناوبدکاری کی راہ اختیارکرنا پھراس کے جوازمیں باہمی رضامندی اورمرضی کو دلیل بنا کرپیش کرنا،جو معاشرے کا ایک ناسوربن گیاہے۔ جب کہ پرامن معاشرے کی بقاوتحفظ اورتعمیروتشکیل کا صرف مذکورہ ضابطوں پر عمل کرنے میںہی مضمر ہے۔ بے راہ روی کے اس ماحول نے ان بہت سی ان لڑکیوںاورخواتین کو بھی اپنی زدمیں لے لیاہے جو پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہیں اورمعاشرے کو اپنی صلاحیتوں اور کردار سے فائدہ  پہنچاناچاہتی ہیں۔مگروہ پراگندہ معاشرے کی شکارہوکراپنی قدریں فراموش کردیتی ہے یا ہوس پرست گروہ کا شکارہوکر تباہ وبربادہوجاتی ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زنابالرضا جسے سماج اور قانون نے لیوان ریلیشن شپ کا نام دے کر جواز تو فراہم کردیا ہے لیکن حقیقت میں وہ زنابالجبرسے بھی زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ  وہ بہ آسانی چوردروازے سے معاشرے کو اپنی زد میں لے لیتاہے پھروہی طریقہ رائج ہوکر زنا بالجبرکی راہ ہموارکردیتاہے۔ اس سے اس کی سنگینی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ اسلام کے احکام کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے ہراس طریقے کو ناپسنداورجرم قرار دیا ہے جس سے انسانیت کا نقصان ہو اور معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجائے۔ خواہ انسان وہ حرکت اپنی مرضی اورباہمی رضامندی سے ہی کیوںنہ کرے۔اسی لیے اسلام نے انسان کو اپنی مرضی کانہیںبلکہ احکام الٰہی کا پابندبنایا ہے اور کہا ہے کہ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔

بدکاری  کی قباحت
رشتہ ازدواج(نکاح ،شادی)کے بغیر مردوزن کا باہمی جنسی خواہش کی تکمیل کرنا، خواہ رضامندی کے ذریعے ہو یا بالجبر ’زنا‘ کہلائے گا۔جسے شریعت نے کھلی بے حیائی اورجرم قراردیاہے۔البتہ جس پر جبرکیاگیاہے وہ قابل گرفت نہ ہوگا ۔زناکی قباحت اورحرمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشادہے: ’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی) ہے۔اوربڑاہی برا راستہ ہے۔‘‘(بنی اسرائیل :۳۲)

اس آیت میں انسانوںکوزنا کے محرکات سے بھی دورہنے کا حکم دیاگیاہے۔ چہ جائے کہ اس فعل بدکا ارتکاب کیاجائے ۔اسی لیے اسلام اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفتگو، اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکیدکرتاہے،کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کوزنااورفحش کاری تک پہنچادیتے ہیں۔رضامندی سے انجام دی جانے والی یہ برائیاں انسان کو جبرتک بھی پہنچادیتی ہیں۔

جس طرح خوبصورت پیکٹ میں کوئی بری اورگندی چیز رکھ دی جائے تواس سے اس کی حیثیت نہیں بڑھ جاتی ۔اسی طرح مرضی اورباہمی رضامندی سے کسی جرم کا ارتکاب کرنے سے وہ درست اورقابل تعریف عمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے وطن عزیز میں کچھ لوگوںکا مانناہے جسے حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ باہمی رضامندی سے اگر جنسی عمل انجام دیاجائے تووہ جرم نہیں ہے۔دلیل کے طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ دوافراد کی رضامندی سے دوسروں کوکیاپریشانی ہے؟

 غورکرنے کی بات ہے کہ محض رضامندی کودلیل مان کرکیا کوئی جرم سرانجام دیا سکتاہے؟ اگرجواب اثابت میں ہو توپھر انسان بہت سی مشکلات میں مبتلاہوجائے گا اور انسانی زندگی تباہ وبربادہوجائے گی۔اس بات کوسمجھنے اورسمجھانے کے لیے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں:

ایک کشتی جودریا کے درمیان ہو اوراس میں کوئی معمولی سوراخ ہوجائے جس کو بند کرنا بہت زیادہ مشکل نہ ہوتواس پر سوارلوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سوراخ کو بند کرنا بہت ضروری ہوتاہے ۔اگرکوئی اسے بندنہ کرے ،بلکہ اس پر سوارمسافروں میں سے دواشخاص یہ کہیں کہ ہم دونوں نے باہمی رضامندی کے ساتھ اس میں سوراخ کیاہے۔اس لیے کسی کو بند کرنے کی اجازت نہیں ہے اورنہ کسی کوکچھ کہنے کا حق ہے ۔توکیا اس کی مرضی پر روک لگانے کے بجائے سارے لوگ ڈوبنے کے لیے تیارہوجائیں گے؟ نہیں ! بلکہ معمولی درجہ کاعقل رکھنے والا بھی ان دونوںکی مزاحمت کرے گااورسوراخ کو بند کرنے کی کوشش کرے گا۔

      اسی طرح ہم لوگ ریل یادیگر سواریوں پر سفرکرتے ہیںجس کے لیے ٹکٹ خریدتے ہیں ، اگرکوئی شخص بناٹکٹ کا سفرکرے اوریہ دلیل دے کہ میں نے ٹی ٹی سے سیٹنگ کرلی ہے،تودیگرمسافروں یا محکمہ ریلوے کو کیاپریشانی ہے تو کیا اس کی یہ بات قابل تسلیم ہے اور اس کایہ عمل جرم نہیں ماناجائے گا؟ اگرنہیں! توپھرآج سے ہی تمام لوگوںکو رضا مندی کے انوکھے طریقے کے ساتھ  بلاٹکٹ سفرکی اجازت مل جانی چاہیے ،ایسے میں کیا محکمہ ریل یا محکمہ نقل وحمل (ٹرانسپورٹ) چل سکے گا،اس کے اخراجات پورے ہوسکیں گے؟ یہ تو ایک محکمہ کا نظام ہے جو مذکورہ اُصول پر نہیں چل سکتا تو پورے معاشرے کا نظام محض دوافراد کی رضامندی سے کیسے چل سکتاہے۔

 آج خودپسندی اوراپنی مرضی کی پیروی نے انسانوںکوتباہی کے ایسے دہانے پر لاکھڑاکیاہے کہ ان کے دل سے احساس جرم نکل چکاہے ،معاشرے کی بقاوتحفظ کی باتوں سے ان کی آزادی میں رکاوٹ محسوس کی جانے لگی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اچھاکام کرے اوربرے کام سے بچے ،یہی وجہ ہے کہ اسے خوشبوسے پیار اوربدبوسے نفرت ہوتی ہے۔ معاشرے میں کوئی شخص گندگی پھیلائے یا کوئی جانور کومار کر اپنے ہی دروازے کے سامنے رکھے ،جس سے کہ بدبو ہو اورتعفن پھیل جائے اور تنبیہ کرنے پر وہ کہے کہ یہ میری مرضی میں جیسے چاہوں رہوں جو چاہوںکروں تمہارے گھرمیں تومیں نے گندگی نہیں ڈالی ، پھرتمہیں کیا پریشانی ہے۔ توکیا اس کی یہ دلیل قابل قبول ہوگی اوراسے یونہی چھوڑدیاجائے گا ؟ ٹھیک اسی طرح باہمی رضا مندی سے قائم کیاگیا جنسی تعلق محض دوانسانوںکا عمل نہیں ہے یا اس میں صرف دولوگوںکی مرضی پر بدکاری کوفروغ حاصل نہیں ہوگا بلکہ جب یہ وبا عام ہوگی توپھرجبروتشدد کی کیفیت کو جنم دے گی، اس کے  نتیجے میں انسانیت کا خاتمہ ہوجائے گااور معاشرہ بدامنی کا شکارہوجائے گا، موجودہ دورمیں اس کامشاہدہ ہم اپنی کھلی آنکھوں سے کرسکتے ہیں۔ آج خواتین کی عصمت دری اوران کے قتل کے واقعات نے بھیانک شکل اختیارکرلی ہے ،ظاہر ہے یہ سب اچانک نہیں ہوگیابلکہ غلط طریقوں اور فحاشی کے فروغ نے ایسا ماحول بنادیاکہ معاشرے کی کشتی میں نہ صرف سوراخ ہوگیاہے بلکہ تیزی سے اس میں پانی بھررہا ہے۔پھربھی لوگ بدکاری کے محرکات واسباب پر گرفت کرنے کے بجائے اس کی وکالت کرتے ہیں۔ اس قسم کے منچلے ہوس پرست لوگوںکی گرفت کرنے کے بجائے انھیں مزیدکھلی آزادی دی جارہی ہے اور قانونی تحفظ فراہم کرکے بے حیائی کے محرکات کو فروغ دیاجارہاہے۔ ان حالات میں نہ صرف سماج کاشیرازہ منتشرہوگا بلکہ ملک تیزی سے زوال کی راہ پر جائے گا۔

بدکاری کے اثرات
اگراس فعل بدکی روک تھام نہ کی گئی تو وہ بھیانک شکل اختیارکربیٹھے گا پھرمعاشرے پر اس کے بدترین اثرات پڑیںگے۔چنانچہ ایڈس جیسی خطرناک بیماری ،غریبی اوربھک مری کی کیفیات اسی سے پیداہوتی ہیں ان پر غور کیا جاسکتاہے۔آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل نبی رحمتؐ نے اس فعل بد کے نقصانات اوراثرات سے متنبہ کردیاتھا۔اس کی قباحت بیان کرتے ہوئے آپ ؐ  نے ارشادفرمایاتھا:
 ’’جس قوم میں زناکاری اورسودخوری عام ہوجائے گی اس میں اللہ کا عذاب آنا لازمی ہے۔‘‘(شعب الایمان للبیہقی(

ایک جگہ اورارشادہے:
 ’’جس قوم میں علانیہ فحش کاری کا بازارگرم ہوجائے اس میں طاعون اورایسی بیماریاں عام ہوجائیں گی  جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔‘‘(ابن ماجۃ)

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ نے مسلمانوں کو اس فحش کاری سے ڈراتے ہوئے دنیا و آخرت میں اس کے انجام بد سے آگاہ کیاتھا۔ آپؐ کا ارشادہے: اے مسلمانوں کی جماعت زنا سے بچو، اس لیے کہ اس(کے نتیجے) میں چھ خصلتیں ملتی ہیں تین دنیا میں اور تین آخرت میں، رہیں تین دنیاوی پریشانیاں: وہ ہیں چہرے کی رونق ختم ہونا، مسلسل فقراور عمر کی تنگی اوراس سے آخرت میں لاحق ہونے والی تین پریشانیاں یہ ہیں: اللہ تعالی کی ناراضی، بدترین مواخذہ اور جہنم میں داخلہ۔(شعب الایمان للبیہقی،ذم الہوی لابن جوزی(


خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب انسان اس قدرتی نظام معاشرت سے بغاوت کرتے ہوئے من چاہی زندگی بسرکرے گا تواسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،جوکوئی قدرت  کے نظام حیات سے انحراف کرتے ہوئے ، خودساختہ طریقہ ایجادکرے گا تو وہ نت نئے مسائل سے دوچارہوگا،اگراس پر روک نہ لگائی گئی توپورا معاشرہ تباہی و بربادی کے سمندرمیں غرق ہوجائے گا اورکوئی اسے بچانے والا نہ ہوگا۔ll     

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...