Sunday 19 February 2017

Ghazal Shak ki soye

غزل

بے سبب پہلے ہم کو سزا دی گئی
قید کی اور مدت بڑھا دی گئی

ہم ہی اہل وفا پاسبان چمن
اور تہمت بھی ہم پر لگا دی گئی

کوئی مجرم نہیں جانتے بوجھتے
شک کی سوئی ہمی پر گھما دی گئی

کوششیں صلح کی رائیگاں ہوگئیں
غیظ کی اور شدت بڑھا دی گئی

مال و زر باپ کے گھر سے لائی نہ تھی
اس لیے بنت حوا جلا دی گئی

وہ محبت ہی کرتا رہے گا سدا
دل میں جس کے محبت بسا دی گئی

اک سہارا تھی تاریکیوں میں رفیقؔ
ہائے وہ شمع بھی اب بجھا دی گئی

محب اللہ رفیقؔ


Friday 17 February 2017

Ghazal: Ahde wafa ko todna acha nahi laga

غزل


عہد وفا کو توڑنا اچھا نہیں لگا
اس نے کہا جو برملا اچھا نہیں لگا

وہ کھل کے میرے سامنے آئے نہیں کبھی
شاید انھیں بھی آئینہ اچھا نہیں لگا

اہل جنوں سے پوچھ لیا مقصد حیات
اہل ہوس سے پوچھنا اچھا نہیں لگا

انساں کا احترام نہ کرنا گناہ ہے
لوگوں کو یہ بھی فیصلہ اچھا نہیں لگا

ہم ان کے در پہ آگئے، کچھ بھی خبر نہیں
اچھا لگا ہے اور کیا اچھا نہیں لگا

شایستگی زباں میں نہ ہو جس کی اے رفیقؔ
اس کا زبان کھولنا اچھا نہیں لگا


محب اللہ رفیقؔ


Friday 10 February 2017

Urdu Ghazal: Sah nahi sakega


غزل

درد و الم کا مسکن اب ڈہہ نہیں سکے گا
آنکھوں کا خشک پانی اب بہہ نہیں سکے گا

جان حزیں تو لے لی سمع و بصر بھی لے لو
تم کو خراش آئے دل سہہ نہیں سکے گا

میں مانتا ہوں پیکر تو حسن کا نہیں ہے
لیکن بغیر تیرے دل رہ نہیں سکے گا

فکرِ معاش کیا ہے تو جان لے گا اے دل
دم توڑتا تیرا گھر جب رہ نہیں سکے گا

جس کے لیے گنوایا سب کچھ رفیقؔ تونے
حق میں ترے کبھی وہ  کچھ کہہ نہیں سکے گا


محب اللہ رفیقؔ




Ghazal: Jis Dil men ho

غزل 

جس دل میں بھی ہو جذبہ ایمان و شہادت کا
پھر خوف بھلا کیا ہو دشمن کی عداوت کا

آگے کبھی باطل کے سرحق کا جھکے کیسے
انجام ہو چاہے کچھ باطل سے بغاوت کا

دشمن تو ہمارے سب ہیں شیر و شکر دیکھو
اب چھوڑ بھی دو قصہ آپس کی عداوت کا

اللہ کی مرضی کو ترجیح دو خواہش پر
احساس تمھیں ہوگا ایماں کی حلاوت کا

تعلیم نبوت میں شامل ہے اخوت بھی
پیکر تو بنو لوگو الفت کا محبت کا

محب اللہ رفیقؔ

Mujrim ۔ Urdu Short Story

مجرم

                                                      محب اللہ

رات کا سناٹا تھا، دھڑام سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی ،چوکیدار چوکنا ہوا ، اپنی لائٹ کی روشنی ادھر اُدھر دکھائی اچانک ایک شخص دکھائی دیا جو اپنے تھیلے میں کچھ لیے ہوئے دیوار پھاندنے کی کوشش کررہاتھا۔اس نے چور چور کی آواز لگائی اور فوراً اس کو دبوچ لیا۔ ڈاکٹر صاحب(گھر کے مالک) نیند سے جاگے اوربھاگے ہوئے آئے۔ فوراً پولیس کو بلایااور چور کو پولیس کے حوالے کردیا۔
آج عدالت میں چو ر کی پیشی تھی۔ جج صاحب آئے اور کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے کہا:’’ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے‘‘

ملزم کو پکڑے ہوئے پولیس آگے بڑھی۔

 ملزم نے ان سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے دبے لفظوں میں کہا :جو رشوت خور ہیں وہ میرا ہاتھ نہ پکڑے اور خود ہی آکر کٹگہرے میں کھڑا ہوگیا۔

وکیل نے ملزم سے سوال پوچھا:’’تمہارا نام کیاہے؟ ‘‘

ملزم:’’رمیش‘‘
وکیل:’’تمہارے والد کیا کرتے ہیں؟‘‘
ملزم:’’وہ اب دنیا میں نہیں ہیں‘‘
وکیل:’’تمہاری تعلیم؟‘‘
ملزم:’’تیسری کلاس پاس ہوں‘‘

وکیل جج کو مخاطب کرتے ہوئے:’’جناب والا! ہمارے دیش میں جرائم کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ لوگ پڑھتے لکھتے نہیں ۔ ایسے ہی بچے ،نوجوان گلی محلوں میں جمع ہوکر چور ،لٹریرے بن جاتے ہیں، جو سماج کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

وکیل نے ملزم کو پھر سے مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا:’’تم اتنے بڑے ہوتم نے تیسری جماعت تک ہی پڑھائی کی، آگے کی تعلیم مکمل کیوں نہیں کی؟‘‘

ملزم:’’ میرے ماں باپ کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد میرے اسکول کی مہنگی فیس کون بھرتا ،جسے میرا باپ اپنی گھر کی ضروریات کاٹ کر پورا کرتا تھا۔ اسی طرح ان لڑکوں کاکھانا کھا کر جینا اور اپنے بیمار ماں باپ کو زندہ رکھنا بھی ضروری تھا جن کے درمیان میں پلا بڑھا تھا۔یہ زیادہ بہتر تھا یا اسکول جانا اور اسکول کی فیس ادانہ ہونے پر ڈانٹ سننا۔

وکیل صفائی نے جج سے درخواست کی:’’ جناب والا، میرے فاضل دوست کا ملزم سے ایسے سوالات کا کیا مطلب ہے؟‘‘

وکیل : ’’جناب ! میں عدالت میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ان جرائم کی وجوہات کیا ہیں ، اس لیے ملزم سے میرا یہ سوال ضروری تھا۔‘‘
جج نے کہا:’’آپ ملزم سے متعلقہ سوال ہی پوچھیں!‘‘
وکیل: ’’تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر چوری کی ہے۔ تمہیں چوری کرتے ہوئے رنگے ہا تھ پکڑا گیا ہے۔ تمہارے پاس سے نقد ی کے علاوہ سونے کے زیورات بھی برآمد ہوئے ہیں۔ تم مجرم ہو!کیو ںیہ بات درست ہے یا نہیں؟ ‘‘
ملزم:’’ میں پکڑا گیا اس لیے چور ہوں!‘‘پھر ڈاکٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’اگر چور میں ہوں تو چور یہ بھی ہیں‘‘!

اس جملے سے عدالت میں سناٹاچھاگیا ۔ لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگی۔ ڈاکٹر اور چور!۔
وکیل :’’جناب والا ! مجرم نے اقرار کرلیا ہے کہ وہ چور ہے۔ مگراپنے بچاؤ کے لیے اس نے ہمارے موکل ڈاکٹر کو چور ٹھہرایا۔‘‘

ملزم:’’ کیا ڈاکٹر صاحب مریضوں کو اپنے کمیشن کے چکر میں اضافی ٹسٹ، مہنگی دواؤں اور ہائی اسکور بل کے ذریعے نہیں لوٹتے؟ تو پھر مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے؟یہی نہ کہ میں رات کے اندھیرے میں یہ کام انجام دیتا ہوں اور وہ دن کے اجالے میں ۔

اب بتائیے !ڈاکٹر صاحب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ وکیل صاحب؟

وکیل کے جواب نہ دینے پر وکیل صفائی (ملزم کے وکیل) نے کہا:
’’جناب والا! یہ بات بہت اہم ہے ۔ لہذا میںملزم کی جانب سے ڈاکٹر صاحب سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں ،مجھے اس کی اجازت دی جائے۔‘‘

جج نے اجازت دیتے ہوئے کہا:
’’ڈاکٹر کو عدالت میں پیش کیاجائے ۔‘‘

وکیل صفائی: ’’ہاں ! جیسا کہ ہمارے مؤکل نے آپ پر الزام لگایا کہ آپ بھی چور ہیں۔ تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی بھی کوئی مجبوری ہے جو آپ نے ایسی حرکت کی ؟‘‘

ڈاکٹر اچانک ا پنے اوپر عائد الزام کو برداشت نہ کرسکا اور بناسوچے سمجھے بے ساختہ بول پڑا:
’’ جی جناب!دراصل بات یہ ہے کہ میرے گھروالے مجھے ڈاکٹر دیکھنا چاہتے تھے ۔انھوں نے مجھ پر کئی لاکھ روپے خرچ کیے ۔ ‘‘

وکیل :’’توکیا ان مریضوں کا خون چوس کرپیسا وصول کریںگے؟‘‘ اس پر قہقوں سے عدالت گونج اٹھی۔
ڈاکٹر:’’ کیا مریض کا علاج کرنے کے بعد معاوضہ لینا جرم ہے؟اور جب تک میرا یہ جرم ثابت نہ ہوجائے مجھے مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘مگر اس چورنے تومیرے ان روپیوں کو اڑالے جانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے کون سی تعلیم حاصل کی تھی ، جاہل کہیں کا۔‘‘

جاہل کا طعنہ سن کر ملزم چورجھلایا:
’’ جب ہمیں پڑھ لکھ کر مجرم ہی بننا تھا تو اس سے بہتر تھاکہ میں جاہل رہا، میںکسی کی زندگی کوداؤ پر لگا کر اس کے جذبات کی قیمت تو نہیں وصول کرتا۔ معاوضہ لینا جرم نہیں بلکہ جرم مریض کو لوٹنا ہے، جو میں پہلے بتا چکاہوں۔

ٹھیک ہے میں چور ہوں اور اس نام کے ساتھ گالیاں سن کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر تا ہوں۔ مگر میں آپ جیسامہذب مجرم نہیں ، جو لوگوں کی زندگی سے کھیلتا اور اسے لوٹتا ہے اور نہ میں ان مجرموں کی طرح ہوںجو ملاوٹ کرکے دو کا دس بنا کر عالیشا ن زندگی جیتے ہیںاور معاشرے میں باعزت صاحب سمجھے جاتے ہوں۔‘‘

چور اور ڈاکٹر کی اس زور دار کی بحث سے عدالت میں شور ہونے لگا۔مجبوراً جج صاحب نے اپنا لکڑی کا ہتھوڑابجاتے ہوئے بولے: آڈر … آڈر ! جب تک کسی سے کچھ نہ پوچھا جائے وہ خاموش رہے۔ وکیل صاحب آپ اپنی جرح جاری رکھیں۔

ڈاکٹر کے وکیل نے ملزم رمیش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ہاں تو تم اقرار کرتے ہو کہ تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر چوری کی ہے ؟کیوں کہ چوکیدار نے تم کو گھر سے بھاگتے ہوئے پکڑا ہے۔‘‘لہذا تم پر جرم ثابت ہوتا ہے۔‘‘

 اس پر ملزم نے جواب دیا:
’’ مجھ جیسے جاہل انپڑھ کو چور اچکا کہہ آپ لوگ بڑے فخر کرتے ہیں مگر آپ ہی بتایے کہ انھیں ڈاکٹر صاحب کو کیا کہیں جواپنی چارسوبیسی سے مریضوں کو لوٹتا ۔میں مانتا ہوں کہ بنا ثبوت کوئی مجرم نہیں ہے۔ توممکن ہے، کل ہمارے خلاف بھی کوئی ثبوت نہ ہو۔ عدالت کا فیصلہ مجھے منظور ہے۔‘‘


Mujrim Published by Umang Sunday


٭٭٭

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...