غزل
عہد وفا کو توڑنا اچھا نہیں لگا
اس نے کہا جو برملا اچھا نہیں لگا
وہ کھل کے میرے سامنے آئے نہیں کبھی
شاید انھیں بھی آئینہ اچھا نہیں لگا
اہل جنوں سے پوچھ لیا مقصد حیات
اہل ہوس سے پوچھنا اچھا نہیں لگا
انساں کا احترام نہ کرنا گناہ ہے
لوگوں کو یہ بھی فیصلہ اچھا نہیں لگا
ہم ان کے در پہ آگئے، کچھ بھی خبر نہیں
اچھا لگا ہے اور کیا اچھا نہیں لگا
شایستگی زباں میں نہ ہو جس کی اے رفیقؔ
اس کا زبان کھولنا اچھا نہیں لگا
No comments:
Post a Comment