Monday 27 February 2017

Ghazal: Zindagani ka Maza Usne hi paya hoga

غزل

زندگانی کا مزہ اس نے ہی پایا ہوگا
جس نے سینے سے غریبوں کو لگایا ہوگا


جب بھی آتی ہے خوشی غم مجھے دے جاتی ہے
غم بھی لگتا ہے خوشی میں ہی سمایا ہوگا

آتش عشق ہے یہ، اس کو بجھا کر دیکھو
آندھیو! تم نے چراغوں کو بجھایا ہوگا

گو بلندی پہ پہنچ جائے مگر ہے مجرم
بے قصوروں کا لہو جس نے بہایا ہوگا

عزم و ہمت کو مرے آؤ گرا کر دیکھو
’آندھیو! تم نے درختوں کو گرایا ہوگا‘

ماں کی ممتا کا تو اندازہ نہیں کرسکتا
بھوکے رہ کر بھی تجھے اس نے کھلایا ہوگا

جس کو سینچا تھا رفیقؔ اپنا لہو دے کے کبھی
کیا خبر تھی کہ وہی پھول پرایا ہوگا


محب اللہ رفیقؔ

Wednesday 22 February 2017

Ghazal: Lakh Dushwar ho Chalna to magar hai peyare

غزل

لاکھ دشوار ہو چلنا تو مگر ہے پیارے
چلتے رہنا ہی تو جیون کا سفر ہے پیارے

جب کبھی تیز قدم میرے چلے رستے پر
یہ صدا آئی ٹھہر عشق نگر ہے پیارے

ماں کی خدمت سے کبھی پہلو تہی مت کرنا
اس کا ہر سانس ترے حق میں اثر ہے پیارے

بس اسی کوچے سے شیوہ ہے گزرنا میرا
جس میں ہر گام پہ الفت کا ثمر ہے پیارے

کلمہ شرک کو میں گیت سمجھ کیوں گاؤں
یہ تو ایماں کے لیے مثل شرر ہے پیارے

بیٹھ جانا نہ سیہ رات سے گھبرا کے کبھی
رات کے بعد ہی تابندہ سحر ہے پیارے

ملک و ملت ہی مری سوچ کا محور ہے رفیقؔ
وقف اسی راہ میںہر علم و ہنر ہے پیارے


محب اللہ رفیقؔ

Ghazal: Khab guhar dekhte rahe

غزل

ہم ارتقا کے شام و سحر دیکھتے رہے
اپنا بلندیوں پہ سفر دیکھتے رہے

قسمت میں جو لکھا تھا، وہی سب کو مل گیا
نادان تھے جو خواب گہر دیکھتے رہے

دشواریوں کا جب بھی ہوا سامنا کبھی
ماں باپ کی دعا کا اثر دیکھتے رہے

میری نگاہ عزمِ سفر پر رہی سدا
اہل ہوس تو زاد سفر دیکھتے رہے

میرے ہنر پہ ان کی نگاہیں نہیں اٹھیں
میرا دہ گھاس پھوس کا گھر دیکھتے رہے

منزل نہ مل سکے گی کبھی آپ کو رفیقؔ
پیروں کے چھالے اپنے ا گر دیکھتے رہیے


محب اللہ رفیقؔ

Sunday 19 February 2017

Ghazal Shak ki soye

غزل

بے سبب پہلے ہم کو سزا دی گئی
قید کی اور مدت بڑھا دی گئی

ہم ہی اہل وفا پاسبان چمن
اور تہمت بھی ہم پر لگا دی گئی

کوئی مجرم نہیں جانتے بوجھتے
شک کی سوئی ہمی پر گھما دی گئی

کوششیں صلح کی رائیگاں ہوگئیں
غیظ کی اور شدت بڑھا دی گئی

مال و زر باپ کے گھر سے لائی نہ تھی
اس لیے بنت حوا جلا دی گئی

وہ محبت ہی کرتا رہے گا سدا
دل میں جس کے محبت بسا دی گئی

اک سہارا تھی تاریکیوں میں رفیقؔ
ہائے وہ شمع بھی اب بجھا دی گئی

محب اللہ رفیقؔ


Friday 17 February 2017

Ghazal: Ahde wafa ko todna acha nahi laga

غزل


عہد وفا کو توڑنا اچھا نہیں لگا
اس نے کہا جو برملا اچھا نہیں لگا

وہ کھل کے میرے سامنے آئے نہیں کبھی
شاید انھیں بھی آئینہ اچھا نہیں لگا

اہل جنوں سے پوچھ لیا مقصد حیات
اہل ہوس سے پوچھنا اچھا نہیں لگا

انساں کا احترام نہ کرنا گناہ ہے
لوگوں کو یہ بھی فیصلہ اچھا نہیں لگا

ہم ان کے در پہ آگئے، کچھ بھی خبر نہیں
اچھا لگا ہے اور کیا اچھا نہیں لگا

شایستگی زباں میں نہ ہو جس کی اے رفیقؔ
اس کا زبان کھولنا اچھا نہیں لگا


محب اللہ رفیقؔ


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...