غزل
زندگانی کا مزہ اس نے ہی پایا ہوگا
جس نے سینے سے غریبوں کو لگایا ہوگا
جب بھی آتی ہے خوشی غم مجھے دے جاتی ہے
غم بھی لگتا ہے خوشی میں ہی سمایا ہوگا
آتش عشق ہے یہ، اس کو بجھا کر دیکھو
آندھیو! تم نے چراغوں کو بجھایا ہوگا
گو بلندی پہ پہنچ جائے مگر ہے مجرم
بے قصوروں کا لہو جس نے بہایا ہوگا
عزم و ہمت کو مرے آؤ گرا کر دیکھو
’آندھیو! تم نے درختوں کو گرایا ہوگا‘
ماں کی ممتا کا تو اندازہ نہیں کرسکتا
بھوکے رہ کر بھی تجھے اس نے کھلایا ہوگا
جس کو سینچا تھا رفیقؔ اپنا لہو دے کے کبھی
کیا خبر تھی کہ وہی پھول پرایا ہوگا
محب اللہ رفیقؔ
No comments:
Post a Comment