Showing posts with label Dini wa Tarbiyati Mazmoon. Show all posts
Showing posts with label Dini wa Tarbiyati Mazmoon. Show all posts

Thursday 12 March 2020

Allah ka Rang



اللہ کا رنگ

اسلام نے ہماری ہر طرح سے رہنمائی کی اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعہ زندگی گزارنے کا اصول عطا کیا. اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم کی جانب سے واضح ہدایت کی گئی. ہم وہی طریقہ اختیار کریں گے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل ہو. اس کے بر خلاف ہمارا قدم نہیں بڑھے گا. ہمیں اللہ کا رنگ اختیار کرنا ہے جو اس کے احکام میں شامل ہے. پھر ہم پر کوئی اور رنگ کیسے چڑھ سکتا ہے. جب کہ ہمارے سامنے ادخلو فی السلم کافۃ (اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ) اللہ کا فرمان ہے.

ہمیں دنیا والوں کے طریقہ کار سے جو اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے کے بر عکس ہے، مرعوب ہونا ہے نہ مدہوش ہونا ہے کہ ہم راہ نجات کو ہی بھول جائیں اور ان رسم و رواج میں الجھ کر اپنے نصب العین کو فراموش کر بیٹھیں.

ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں جس کی اپنی ایک شناخت ہے اور وہ اللہ کا رنگ ہے وہ اسی کے ساتھ جیتا ہے اور اسی کی خاطر مر مٹنے پر شہادت کا اعزاز حاصل کرتا ہے. اس رنگ میں پوری طرح رنگنے کے بعد وہ دوسروں کو اس رنگ میں رنگنے کی دعوت دیتا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ دوسرے لوگ اس رنگ کو دیکھ کر خود ہی اس رنگ میں رنگ جانے کو مچل اٹھتا ہے. کیونکہ اس رنگ کے بعد سب رنگ پھیکے ہیں.

’’ اور اللہ کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے اور ہم اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں۔‘‘
محب اللہ قاسمی

Delhi Fasad Istefa ki Mang aur AAP


دہلی فساد استعفیٰ کا مطالبہ اور آپ

   گجرات فساد 2002 میں ہوا. جس میں انسانوں کا درندگی کے ساتھ قتل عام ہوا. مگر افسوس کہ اس کے بعد وہاں کا سی ایم جو آگے چل کر پی ایم بن جاتا ہے. فروری 2020 میں دہلی کا بھیانک فساد ہوا. اس کے بعد آج مورخہ 2 مارچ کو پارلیمنٹ سیشن کے دوران وزیر داخلہ سے استعفیٰ (جو اخلاقی طور پر انھیں فوراً ہی دے دینا چاہیے تھا کیونکہ دہلی پولیس براہ راست ان کے ماتحت تھی مگر 50 گھنٹے تک فساد جاری رہا اور وہ کنٹرول نہیں کر سکے) کا پر زور مطالبہ ہوا اور ہونا بھی چاہیے تھا مگر لگتا ہے کہ یہ فضول ہے.

   یہ دور اخلاقی گراوٹ کے اتنی پستی کا ہے کہ اس میں اس طرح کا مطالبہ کارعبث معلوم ہوتا ہے. بلکہ یوں کہا جائے کہ اب انصاف کی امید بھی ختم ہوتی جا رہی ہے کہ دہلی فساد جس میں درجنوں لوگوں کی جانیں گئیں، اربوں روپے کا نقصان ہوا، مکانات اور مساجد نذر آتش کی گئیں۔ اس پر جج مرلی دھر صاحب نے کچھ ایکشن لیا اور انصاف کی بات کہی تو راتوں رات ان کا ٹرانسفر ہو گیا. ایسے میں بھلا وزیر داخلہ کیوں کر استعفیٰ دیں. کیا پتہ جناب بھی آگے چل کر پی ایم ہو جائیں؟ کیا بعید!

   شاہین باغ کا احتجاج ختم کرنے پر غور کیا جانا چاہیے. یہ بات سنجیے سنگھ جی بڑے وثوق سے کہہ رہے تھے کہ لمبے عرصے سے جاری اس احتجاج سے بی جے پی کا سیاسی فائدہ ہو رہا ہے. اس احتجاج میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان شریک ہوتے ہیں جس سے وہ پولورائز کرتے ہیں.

   جناب پہلی بات تو یہ کہ اس پروٹیسٹ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پورا ہندوستان شامل ہے. صرف شاہین باغ دہلی میں ہی نہیں بلکہ پورے بھارت میں ہر جگہ احتجاج کا شاہین باغ بن چکا ہے اور یہ آئین کے لیے کھڑا شاہین باغ ہے. اگر اس سے بی جے پی کا سیاسی فائدہ ہوتا تو دہلی میں آپ کی تیسری بار سرکار نہیں بنتی۔ آپ کو تو یہ کہنا چاہیے کہ پورے بھارت میں اس کالا قانون سی اے اے ،این پی آر اور این آر سی کو لے کر 78 دنوں سے احتجاج جاری ہے. حکومت اس پر غور کرے اور اسے فوراً ختم کرنے کی صورت نکالے. پھر سب جگہ سے احتجاج خود بخود ختم ہو جائے گا.

   ان مقامات پر لوگ سردی بارش میں بیٹھے پکنک نہیں منا رہے ہیں، بلکہ وہ آئین کی حفاظت کے لیے دھرنے پر بیٹھے ہیں. سنجے سنگھ جی کو یاد ہونا چاہیے کہ وہ بھی ایک دھرنا ہی تھا جس میں شامل ہونے کے بعد عام آدمی پارٹی وجود میں آئی.

   آپ نے کہا کہ پولیس ہمارے ادھین یعنی ماتحت نہیں ہے. یہ کوئی نئی بات نہیں یہ تو سبھی جانتے ہیں مگر یہ بتائے آپ کے ہاتھ پیر اور زبان یہ سب بھی آپ کے ادھین ہیں یا نہیں؟ پھر ان فسادات کو روکنے کے لیے کیوں آپ گھر سے باہر نہیں نکلے، کیوں لمبے وقفے تک آپ کی زبان خاموش رہی. کیوں دہلی کے وزیر اعلی عوام سے بات کرنے کے لیے باہر نہیں نکلے جب کہ عوام ان کے گھر کے سامنے رات بھر گوہار لگاتی رہی، چیخ و پکار کرتی رہی۔
   حضور ہم عام آدمی ضرور ہیں، ہم نے آپ کو پورا سپورٹ کیا، جس کے سبب تیسری بار آپ کی سرکار بنی. مگر ہم اتنے بھی بے وقوف نہیں جو کچھ نہیں سمجھتے. آپ بھی بدل گئے!
محب اللہ قاسمی

Wednesday 11 March 2020

Iman ki Daulat ke siwa kuch bhi nahi hai









ایمان کی دولت
ایمان کی دولت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
راضی جو نہیں رب تو بھلا کچھ بھی نہیں ہے

غیرت نے پکارا ہے کہ میدان میں آؤ
جینے کا مزہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

ظلمت کو مٹانا ہے تو جل شمع کے مانند
ظلمات کے شکوے سے ملا کچھ بھی نہیں ہے

ظالم تو مٹانے پہ تلے ہیں ہمیں لیکن
ظالم کو مٹانے کی صدا کچھ بھی نہیں ہے

مولی کی رضا پر ہی چلو تم بھی رفیق اب
منزل ہے وہی اس کے سوا کچھ بھی نہیں
محب اللہ رفیقؔ قاسمی

Thursday 5 March 2020

Wednesday 19 February 2020

Sheen Baagh hai







شاہین باغ



ظلمت میں جل رہا دیا شاہین باغ ہے

شیطان جس سے ہے خفا شاہین باغ ہے



مطلب سمجھ میں آگیا شاہین کاہمیں

ہر شہر اور ہر جگہ شاہین باغ ہے



ٹکرانے ظلم و جبر سے نکلی ہیں دادیاں

اس وقت حق کا اک دیا شاہین باغ ہے



قانون لے کے آئے وہ آئین کے خلاف

آئین کیلئے کھڑا شاہین باغ ہے



بدلاؤ کیوں نہ آئے گا اس وقت اے رفیق

اک جوش ایک ولولہ شاہین باغ ہے



محب اللہ رفیقؔ قاسمی


Saturday 15 February 2020

My first Book 2nd Addition



میری پہلی کتاب کا دوسرا ایڈیشن

الحمد للہ میری کتاب "شخصیت کی تعمیر اسلام کی روشنی میں" اس کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آ گیا ہے. اللہ تعالیٰ اسے مزید قبولیت عطا کرے  اور ذخیرہ آخرت بنائے۔آمین.

شخصیت کی تعمیر- اسلام کی روشنی
مصنف: مولانا محب اللہ قاسمی
صفحات: 134
قیمت: 85 روپے
ملنے کا پتہ: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نی دہلی 110025

کتاب "شخصیت کی تعمیر اسلام کی روشنی میں" مبصرین کی نظر میں:
  ابھی میرے سامنے جناب محب اللہ قاسمی صاحب کی کتاب ہے۔ موصوف نے ہدایت انسانی کے لیے اس کی تصنیف کی ہے، مختلف موقعوں سے اخبارورسائل میں تذکیری مضامین لکھے ہیں، اس میں ایمانیات اور اخلاقیات سے متعلق اسلامی تعلیمات پر خامہ فرسائی کی ہے ۔ یہ کتاب ان ہی مضامین کا مجموعہ ہے۔پوری کتاب پر نظر ڈالنے کے بعد بڑی خوشی ہوئی کہ نوخیزقلم کار نے اپنے سوز دروں کو نہایت ہی سلیقے سے سپرد قرطاس کیا ہے، ان کو پڑھ کر قارئین متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔بہترین انسان بننے کے لیے کیا کیا کرنا چاہیے اور کن کن بہیمی صفات کو اپنا کر انسان بدترین بن جاتا ہے ، تخلیہ اور تحلیہ کی اصطلاح کو ذکر کیے بغیر مصنف نے اس موضوع کو تمام قارئین کے لیے بالکل آسان زبان میں لکھا ہے، زبان رواں دواں اور اسلوب متانت آمیز ہے۔

  اللہ تعالی موصوف کی محنت کو قبول فرمائے اور زبان و قلم سے دین حنیف کی خدمت کی توفیق بخشے۔کتاب کتابت ، طباعت، ٹائٹل اور زبان و بیان کے لحاظ عمدہ اور قابل قدر ہے۔ امید ہے کہ قارئین کی بارگاہ میں محبوبیت کا شرف حاصل کرے گی۔ و باللہ التوفیق!
(مولانا اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند کے تبصرے سے ماخوذ)
*****

اس کتاب کے مصنف مولانا محب اللہ قاسمی نوجوان صاحبِ قلم ہیں ۔ دینی موضوعات پر ان کے مضامین آئے د ن رسائل وجرائدکی زینب بنتےرہتے ہیں اورانہیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب انہی مضامین کا ایک انتخاب ہے جس میں اخلاق فاضلہ اوراخلاق سیئہ دونوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ کچھ مضامین میں انفرادی تربیت کونمایاں کیاگیا ہے اوراس کی تدابیر بیان کی گئی ہے ۔ ان کے عناوین یہ ہیں: تزکیۂ نفس ، بیداری ضمیر، سکونِ قلب، حیا، زبان کا صحیح استعمال ، خلوص، صبرو شکر، جب کہ دوسرے مضامین میں حقوق العباد سے بحث کی گئی ہے، مثلاً ایثار، صدقہ کا وسیع مفہوم ، مال میں غریبوں کا حق، نیکی پرمداومت ، یکساں پیما نے وغیرہ ۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں بہت سادہ اسلو ب، شستہ زبان اورعام فہم انداز میں اسلامی اخلاقیات کونمایاں کیاگیا ہے۔ قرآنی آیات اور صحیح احادیث سے مباحث کو مدلل کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے تربیتِ نفس اور حسن عمل کا جذبہ ابھرتا ہے ۔ مناسب ہوگا کہ اس کتاب کا ہندی زبان میں بھی ترجمہ کروایا جائے اوراسے زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کی جائے ۔    ( محمد رضی الاسلام ندوی )
*****

      شخصیت کی تعمیر میں صفحہ نمبر ۸۷ پر قاسمی صاحب رقمطراز ہیں’نیکی اور بھلائی کا عمل خواہ کتنا بھی چھوٹا اور معمولی کیوں نہ ہو اسےہلکا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسلام میں ہر کارِ خیر خواہ وہ کسی بھی درجہ کا ہو، اہمیت کا حامل ہے ۔اس لیے کسی عمل کو حقیر سمجھ کر ترک کردینا مناسب نہیں ہے‘۔ یہ درست ہے کہ افراد اور کاموں کو حقیر سمجھنے سے انسان کے اندر رعونت پیدا ہوتی ہے۔ اپنی کتاب کے صفحہ ۸ پر وہ لکھتے ہیں ’اللہ نے انسانوں کو قدم قدم پر ایک دوسرے کا محتاج بنادیا ہے۔ ایسے میں ان کے غرور و تکبر کا کوئی جوا زباقی نہیں رہ جاتا۔ محتاج اور ضرورتمند متکبر نہیں ہوسکتا‘۔ اس طرح کی اچھی اچھی باتیں کہنا یا لکھنا جس قدر آسان ہے اس پر عمل پیرا ہو نا اتنا ہی مشکل ہے۔

        مذکورہ کتاب کےصفحہ
۱۰۴ پر درج ہے۔ ’ایک مومن کا تعلق دوسرے مومن سے اخوت پر مبنی ہوتا ہے۔ ایمان کا رشتہ ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ آدمی اپنے مومن بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے‘۔ اگلے صفحہ پر وہ امام ابن تیمیہ کا اقتباس نقل کرتے ہیں ’مومن کو دوسرے مومن بھائیوں کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے اور ان کی تکلیف سے وہ بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ جس میں یہ کیفیت نہ ہووہ مومن نہیں‘ ۔ یہ جملہ پڑھتے وقت ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں آگیا اس لیے کہ دوسروں کی تکلیف کو دور کرنا سہل ہے لیکن کسی کی خوشی سے خوش ہوجانا مشکل کام ہے۔
(معروف صحافی ڈاکٹر سلیم خان کے تبصرے سے ماخوذ)

     واضح رہے کا اس کا ہندی ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔جسے مرکزی مکتبہ نے شائع کیا ہے۔ صفحات 120 اور اس کی قیمت 80 روپے ہے۔

https://www.facebook.com/photo.php?fbid=2560916107352792&set=a.243883505722742&type=3&theater&notif_t=feedback_reaction_generic&notif_id=1581752318679688

Tuesday 21 January 2020

Jahannam Numa (Story)

جہنم نما




جہنم نما
(کالا قانون کی حقیقت اور اس کے انجام سے روبرو کراتی ایک پرسوز کہانی)

Sunday 19 January 2020

Story : Jahannam Numa



جہنم نما
( کالا قانون کی حقیقت اور اس کے انجام سے روبرو کراتی ایک پرسوز کہانی ضرور پڑھیں )
       
جلدی کرو مجھے نہانا ہے۔ دوہفتے ہو گئے نہائے ہوئے۔ ایک ہفتے تک تو نہانے کے لیےپانی ہی نہیں میسر تھا۔اب پانی کے لیے لمبی قطار کہ نمبر ہی نہیں آ رہا ہے۔ آج تو میں کسی طرح نہاکر ہی رہوں گا۔ جسم سے بڑی بدبو آ رہی ہے۔اگر چہ اس جگہ سبھی بدبودار ہوگئے تھے پانی کی سہولت سے محروم تھے۔ بیت الخلا میں بھی لمبی لائن لگی تھی۔ سونے کے لیے بستر چٹائی تو دور، جگہ تک نہیں تھی کہ کدھر سر رکھیں کدھر پیر؟ ہر شخص ایک دوسرے پر پاؤں رکھے سو رہا تھا، بلکہ آنکھیں بند ہونے لگتیں تو ہٹو ہٹو، ادھر جاؤ ،ادھر جاؤ، کی آواز سے آنکھیں کھل جاتی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی لمبے روٹ کی ٹرین ہے، جس کے جنرل ڈبے میں لوگ ٹھسے ہوئے ہیں۔

        صابرکو بڑی مشکل سے نہانے کا موقع ملا۔ چہار دیواری سے گھرے ہوئے دو بڑے سے ہال، جن میں تقریبا ً500 لوگ، جن کے لیے 15بیت الخلا اور نہانے کے لیے صرف دوبڑے غسل خانے اور ان میں 4 لگے ہوئے نل تھے۔ سینکروں لوگ نہانے کے لیے لائن میں لگے ہوئے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ خیر صابر بڑی مشکل سے نہاکر گیلے کپڑوں کے ساتھ باہر آیا۔ اسی دوران سنٹر کی چہار دیواری کے اندر ایک شخص جو اس کا ذمہ دار تھا کھانے پینے کا سامان لیے ہوئے آیا۔ یہ کھانے کا سامان تین دن بعد آیا تھا۔بھوک سے نڈھال لوگ اس پر بھوکے شیر کی طرح ٹوٹ پڑے۔ اس شخص بے رحم نے اپنے جلاد ساتھیوں کو اشارہ کیا۔ اس نے سب پر بڑی بے دردی سے چمڑے کا چابک برسانا شروع کر دیا۔

         اس سینٹر پر آنے والا ہر شخص غریب، جاہل، بے سہارا نہیں تھا، بلکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے ،جن کا شمار اپنے خاندان کے بڑاےباوقار مال دار اپنے علاقہ کے خوش حال لوگوں میں ہوتا تھا، جن کے طرز زندگی پر لوگ ناز کرتے تھے، جنھوں نے نے بڑی مشکل اور محنت سے اپنی خوش حال زندگی کے لیے کچھ بنایا تھا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ یہاں بڑی تعداد میں غریب مزدور، ان پڑھ اور گنوار لوگ تھے، مگر سارے بے بسی، بے کسی اور مجبور زندگی کے مشکل ترین حالات سے دوچار تھے۔

        یہ کوئی چور، ڈاکو، لٹرے، قیدی یا خونخوار مجرم نہیں تھے، جن کو سزا دینےکے لیے اس کال کوٹری سے بھی بدتر جگہ میں ڈال کر مرنے کے لیے مجبورکر دیا گیا تھا۔ بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ہی وطن میں اپنی شہریت ثابت کرنے سے قاصر رہےتھے ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ یہاں پیدا نہیں ہوئے، یا ان کے باپ دادا یہاں کے نہیں تھے۔ ان کے پاس آدھار کارڈ، راشن کارڈ نہیں تھا، بلکہ ان کے پاس ان سب کے علاوہ ووٹر کارڈ بھی تھے، جس کے ذریعہ وہ حکم راں چنتے تھے۔ ان کے باپ دادانے آزادی وطن کی جنگ میں انگریزوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر مقابلہ بھی کیا تھا۔

         ہاں ان کے پاس نہیں تھا تو وہ کاغذ جس سے یہ ثابت ہوتا کہ ان کے ابا اس دیش میں کب پیدا ہوئے؟ کچھ نے اسے بڑے اہتمام سے سنجو کے رکھا بھی تھا ،مگر انھیں کیا پتہ تھا کہ سیلاب ان کے اس گھریلو سامان، اناج پانی کےساتھ ان کے تمام ڈاکومنٹس کو بھی بہا لے جائے گا۔ آگ زنی میں ان کے گھر مکان کے ساتھ ان کے وہ کاغذات بھی جل جائیں گے۔

        جن کے پاس کاغذات بچے بھی تھے، ان کے ناموں میں اسپیلنگ مسٹیک تھا،یا پھر کوئی اور نقص۔ کیو ںکہ آدھار اور ووٹر کارڈ تو اس کے لیے قابل قبول تو تھا نہیں، جنھیں وہ پیش کر کے اس نرک سے بچ جاتے۔ اس طرح کی چیزوں نے ان کا معاملہ خراب کر دیا تھا۔ ان کے کاغذات بھی غیر معتبر ہوگئے تھے، جس کے سبب وہ سب کال کوٹھری میں بند کر دیے گئے۔

        وہاں صابر ہی ایسا نہیں تھا جس کو مسلم گھس پیٹھیا سمجھ کر جہنم کی وادی میں ڈال دیا گیا ہو، بلکہ کاغذات پورے نہ کرنے والوں میں بہت سے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے ، جن کی بڑی تعداد ان قیامت خیز مصائب میں مبتلا کر دی گئی تھی۔

        جب یہ نرک ہے تو اس میں پریشانیاں اور ظلم کے علاوہ تو کچھ ہوگا۔اس میں یہ بھی تھا کہ ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگوں میں کسی کابھائی ڈالا گیا تو دوسرا باہر ، کسی کی بیوی کو اندر کیا گیا تو اس کا شوہر اور بچہ باہر۔ کسی کا بیٹا اندر تو باپ باہر۔ کسی کی بیٹی قیدکی گئی تو اس کی ماں باہر، الغرض ایک عجیب سی ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ وہ بھی صرف اس لیے کہ ان کے پاس کاغذات نہیں تھے، جن سے یہ ثابت کر سکیں کہ وہ اسی دیش کے رہنے والے ہیں۔ پھر یہ بھی پریشانی تھی کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ یہاں کے نہیں تو پھر کہاں کے ہیں ؟جہاں کے بھی ہیں وہاں ان کو بھیجنے کا بندوبست کیا جاتا۔

        ان کاغذوں کے ماروں پر ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ظالموں نے پورے ملک میں مذہب کو شہریت کی بنیاد بنا کر شہریت کا نیا قانون بنا ڈالا، جو خود اس دیش کے دستور ی اور بنیادی حقوق کے خلاف تھا اور اس کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب یہاں کی عوام کو الگ الگ حصوں میں بانٹ دیا۔ اس طرح پورے ملک میں اسی خاص قسم کے کاغذکی ضرورت سب کو ہوگی ،جس کے نہ ہونے کے سبب وہ جہنم میں ڈالے گئے تھے۔اس کی وجہ سے اب  یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو الگ کر کے انھیں تو اس جہنم میں باقی رکھا جائے گا، مگر جو مسلمان نہیں ہوں گے ان کو شرنارتھی کا کاغذ بنا کر اسے یہاں سے نکال لیا جائے گا۔

        اس نرک میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ صابر بھی بے بہت پریشان تھا۔ اسے ہمیشہ اپنوں سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھنا اچھا لگتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے خود آج نہائے ہوئے کئی دن ہوگئے تھے۔ وہ اپنے کھانے میں سے دوسروں کو بھی کھلادیتا تھااور خود کسی طرح بھی دن کاٹ لیتا تھا۔

        اس دوران کئی لوگوں کی موت ہوگئی اور بہت سے لوگ سوکھ کر کانٹا ہوگئے تھے۔ کھانا بانٹنے والوں نے ہنگامے کوروکنے کے لیے ایک زور کا ہنٹرچلایا جس سے صابر کے بازو میں کھڑاشخص، جو مسلمان نہیں تھا، اس کے ہاتھ پر ایسا لگا، جس سے اس کے کھانے کی تھالی دور جاگری اور پورا کھانا بکھر گیا۔ پھر کیا تھا؟ وہ سب لوگوں پر ہنٹر برسانے لگا۔ سب ڈرے اورسہمے ہوئے تھے۔ صابر زور زور سے چلانے لگا ۔ ارے صاحب! ہم لوگوں کو کیوں مارتے ہو؟ہمیں مت مارو،ہمیں مت مارو۔۔۔!

        تبھی خالد ،مکیش ،زینب، ریکھا،ست ویر اورڈیسوزا چونکے ۔کہنے لگے: کیا ہوا بھائی؟ کیوں چلا رہے ہو؟ نیند میںکیا بڑبڑا رہے تھے؟

        صابر نے اِدھر ُادھر لوگوں کو دیکھا ۔ سب احتجاج کر رہے ہیں اورابھی رات کے تین بجے ہیں۔ وہ کافی دنوں سے سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج میں شریک ہو رہا تھا۔ اس لیے کئی دنوں سے سویا نہیں تھا۔ آج پلک جھپک گئی تو خواب بھی ایسا کہ اللہ کی پناہ ۔ سب نے کہا :گھبراؤ مت ،وہ خواب تھا۔ حقیقت کی دنیا میں اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔

        خوشیوں کا پیغام لیے صبح نمودار ہوئی ۔معلوم ہوا سبھی نیوز پیپر ،ٹی وی چینلوں اور تمام میڈیا میں خبر آگ کی طرح گردش کررہی تھی کہ حکومت نے کالا قانون واپس لے لیا ہے۔ اب دیش میں این آرسی نہیں ہوگا۔
***



Thursday 16 January 2020

Zalimun ko Zulm se Roku Speech in Shaheen Bagh Protest Against CAA NRC &...







ظالموں کو ظلم سے روکو!
ایمان اور خوف ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتا. ظالموں
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں ظلم سے روکنے کی کوشش کی جائے ان سے ڈرنے اور
گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں. چاہے اس راہ ہمیں کتنی ہی قربانی دینی پڑے مسلمان
کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا. کیونکہ مسلمان بزدل نہیں ہوتا. وہ ظالموں کے خلاف
سینہ سپر رہتا ہے
.
شاہین باغ
کی ہماری ماں بہنوں اور دادیوں کو میرا سلام، جو تقریباً ایک ماہ سے دہلی کی سرد
راتوں میں اپنے شیرخوار بچوں کو لیے مسلسل احتجاج کی خاطر اکٹھا ہوتی ہیں. آپ سب
ہمارے پیارے رسول صلی اللہ و سلم جن پر ہمارا سب کچھ قربان کی حدیث پر عمل پیرا
ہیں. جس کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ عطا کرے گا. آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد
ہے
:
عن انس، عن النبي صلى الله
عليہ و سلم قال: " انصر اخاك ظالما او مظلوما "، قلنا: يا رسول الله،
نصرته مظلوما، فكيف انصره ظالما؟ قال: " تكفه عن الظلم فذاك نصرك إياه "
(ترمذی)
حضرت انس
رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی
کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم“، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے مظلوم
ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کی لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کیسے
کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے ظلم سے باز رکھو، اس کے لیے یہی تمہاری مدد ہے“۔

اس لیے کالاقانون کے خلاف ہمارا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ یہ ظالمانہ قانون ختم
نہ ہو جائے. اللہ ہمارا مدد گار ہے
.
محب اللہ قاسمی







ظالموں کو ظلم سے روکو!
ایمان اور خوف ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتا. ظالموں
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں ظلم سے روکنے کی کوشش کی جائے ان سے ڈرنے اور
گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں. چاہے اس راہ ہمیں کتنی ہی قربانی دینی پڑے مسلمان
کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا. کیونکہ مسلمان بزدل نہیں ہوتا. وہ ظالموں کے خلاف
سینہ سپر رہتا ہے
.
شاہین باغ
کی ہماری ماں بہنوں اور دادیوں کو میرا سلام، جو تقریباً ایک ماہ سے دہلی کی سرد
راتوں میں اپنے شیرخوار بچوں کو لیے مسلسل احتجاج کی خاطر اکٹھا ہوتی ہیں. آپ سب
ہمارے پیارے رسول صلی اللہ و سلم جن پر ہمارا سب کچھ قربان کی حدیث پر عمل پیرا
ہیں. جس کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ عطا کرے گا. آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد
ہے
:
عن انس، عن النبي صلى الله
عليہ و سلم قال: " انصر اخاك ظالما او مظلوما "، قلنا: يا رسول الله،
نصرته مظلوما، فكيف انصره ظالما؟ قال: " تكفه عن الظلم فذاك نصرك إياه "
(ترمذی)
حضرت انس
رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی
کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم“، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے مظلوم
ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کی لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کیسے
کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے ظلم سے باز رکھو، اس کے لیے یہی تمہاری مدد ہے“۔

اس لیے کالا
قانون کے خلاف ہمارا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ یہ ظالمانہ قانون ختم
نہ ہو جائے. اللہ ہمارا مدد گار ہے
.
محب اللہ قاسمی

Wednesday 20 November 2019

Babri Masjid Tujhe Hum Phir Banayenge


اے بابری مسجد-----!

محب اللہ قاسمی

سینے پہ ترے جب بھی وہ مندر بنائیں گے
اے بابری مسجد تجھے ہم پھر بنائیں گے

دنیا کی عدالت سے بھی ثابت یہی ہوا
مسجد کیلئے کوئی بھی مندر نہیں ٹوٹا
مسجد کی جگہ بت کدہ شاطر بنائیں گے
اے بابری مسجد تجھے ہم پھر بنائیں گے

مسجد گرانے والوں کو ثابت کیا مجرم
قبضہ بھی انھیں دیدیا جو لوگ تھے ظالم
ظالم اسی زمین پہ مندر بنائیں گے
اے بابری مسجد تجھے ہم پھر بنائیں گے

دنیا کو پتہ ہے کہ ہے مسجد خدا کا گھر
تعمیر کی گئی تھی وہ جائز زمین پر
مندر وہاں پہ کس طرح آخر بنائیں گے
اے بابری مسجد تجھے ہم پھر بنائیں گے

تیرے لیے تو جان بھی قربان کیا ہے
تجھ پر مٹیں گے ہم نے یہ ایمان کیا ہے
تجھ کو تری جگہ تری خاطر بنائیں گے
اے بابری مسجد تجھے ہم پھر بنائیں گے

ان شاء اللہ تعالیٰ

Sunday 10 November 2019

Babri Masjid Faisla



آہ... اے بابری مسجد
                                                           محب اللہ قاسمی

اے بابری مسجد ہم مسلمانوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ تیری جگہ بحال ہو اور حسب سابق پھر سے اسی مقام پر مسجد کی تعمیر ہو کہ مسجد کی زمین تا قیامت مسجد کی رہتی ہے. اس جگہ مندر تو دور کوئی اور تعمیر بھی ممکن نہیں.

مگر اے خدا یہ تیرے باغی بندے جو تیری قدرت کو نہیں جانتے اور اپنی معمولی قوت پر مغرور ہیں، پہلے مسجد توڑی، اس وقت بھی مسلمانوں نے اس کی بازیابی کے لئے بڑی قربانیاں پیش کیں اور اب مسجد توڑنے والے ظالموں نے عدالتی طور پر بھی ہم سے یہ زمین چھین لی ہے. مقدمہ بابری مسجد متنازعہ زمین کے حق ملکیت کا تھا نہ کہ زمین کے بدلین کا۔ پھر بدلے میں پانچ ایکڑ زمین کا فیصلہ کیوں؟ مسلمانوں نے مسجد کی زمین کا حقِ ملکیت کے لیے قانونی لڑائی لڑی تھی، نہ کہ اس کے بدلے کوئی سودا. اس لیے وہ مسجد کی زمین کے بدلے پانچ تو کیا پانچ سو ایکڑ بھی زمین آخر کیوں لے۔

ابے بابری مسجد عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی. پھر مسجد کیوں توڑی گئی؟ اور اب وہ زمین مسجد توڑنے والوں کو مندر کے لیے کیوں دی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ ہو سکتا ہے مگرانصاف نہیں؟ جسے تاریخ میں یہ درج کیا جائے گا کہ مندر توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی مگر مسجد توڑنے کے بعد اسی جگہ مندر بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اس لیے اے بابری مسجد ہم نے مسجد کو بت خانہ کے لیے نہیں دیا ہے. عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہماری ذمہ داری ہے. ورنہ اب بھی ہمارے دلوں میں وہ زمین، مسجد کی تھی، مسجد کی ہے اور تا قیامت مسجد ہی کی رہے گی. اے اللہ تیرا گھر جسے شہید کر دیا گیا اور اس کی زمین کا یہ معاملہ اب تیرے ہی حوالے ہے.

یا اللہ ہماری آنکھیں اشکبار ہیں. دل مضطرب ہے، ہمارے گناہوں کو معاف کرنا اور ان ظالموں سے دنیا ہی میں ظلم کا عبرتناک حساب لینا، انھیں کیفرکردار تک پہنچانا. یہ ہماری دعا ہے، التجا ہے.
حسبنا اللہ و نعم الوکیل

نعم المولی و نعم النصیر

Sunday 28 July 2019

Story: DECISION فیصلہ



فیصلہ

شہلہ تم بھی نا عجیب لڑکی ہو۔شہرت کی بلندی پر بیٹھی ہر خاص و عام کی زبان پر تمہارا ہی چرچا ہے۔ اس کم عمری میں اتنی مقبولیت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔اب تم ہر جواں لڑکی کی آئیڈیل ہواور کریئر بنانی والی لڑکیوں کی آئکن گرل بن چکی ہو۔اس کے باوجود بھی نہ جانے تم کن خیالات میں گم رہتی ہو۔

شہلہ اپنی سہیلی ششما کی باتیں سنتی رہی۔ پھر وہ اپنے خیالات میں گم ہو گئی۔ ششما یہ دیکھ کر جھنجھلا ئی اور بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے جانے لگی”سوچتی رہو۔ اب تمہارا کچھ نہیں ہوگا۔

تب شہلہ نے جواب دیا۔ وہی تو میں بھی سوچ رہی ہوں کہ میں اتنی مشہور ہو گئی ہوں،مگر میرے رب کے یہاں میرا کچھ بھلا نہیں ہوگا۔جس خدا نے مجھے وجود بخشا، زندگی دی وہی مجھ سے راضی نہیں!

میں چمک دمک کی اس رنگین دنیا میں گم ہو چکی ہوں، میں اپنے رب کو بھول گئی ہوں۔ میری خاموش راتیں جس کی تنہائیوں میں جب میں ہوتی ہوں، تو میرا ضمیر مجھے آواز دیتا ہے اور اس کے سوالات مجھے بے چین کردیتے ہیں۔

ششما تمہیں نہیں معلوم! موت کی حقیقت، خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس اور زندگی کی مقصدیت سے لاپرواہی نے مجھے اندر سے جھنجھور کر رکھ دیا ہے۔ میری روح مجھ سے پوچھتی ہے کہ شہلہ دوسرے لوگوں کی طرح ایک دن تمہیں بھی مرنا ہے۔ تمہاری زندگی یہ اس رب کی دی ہوئی امانت ہے جس نے سارے جہاں کو وجود بخشا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف اس میں تصرف خیانت ہے۔ میرا ضمیر مجھ سے کہتا ہے کہ مانا تم خوبصورت ہو، مغرور ہو اور ابھی کافی مشہور بھی ہو گئی ہو،مگر ذرا سوچو کیا یہ سب باقی رہنے والی چیز ہے؟ شہرت کی وہ عمارت جو تیرے رب کی ناراضگی کھڑی ہو۔ جس پر تیرا غرور جسے جب چاہے خداچور کر دے۔ یہ جوانی اور خوب صورتی جو چند روزہ ہے، بہ ذات خود تمہارااس میں کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ صرف اوپر والے کی دین ہے۔ تو کیا تم اس کی نافرمانی میں اسے صرف کردوگی؟ یا خدا اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے اور اس کی مرضی کو جاننے کی کوشش کروگی؟اس کی دی ہوئی زندگی کاصحیح استعمال کروگی یا پھر اپنی مرضی سے اس کے غضب اورجہنم کے شعلوں کا شکار بنوگی؟

اپنے حسن و ادا کی نمائش کرنے والی اور اس کے سہارے شہرت بٹورنے والی لڑکیوں کی طرح تم بھی اسی گناہ کے کیچڑ میں جا دھنسو گی۔ جب کہ تم تو بنت حوا ہو،شرم و حیا تمہارا گہنا ہے۔ پاکیزہ زندگی تمہارا مقصد اور رب کی رضا تمہارا نصب العین ہے۔

ششما نے اس کی تمام باتیں بغور سننے کے بعد اس سے کہا: یہ بات تو ہے پر تم تو جانتی ہی ہو کہ یہ ایسا ماحول ہے، جہاں ہمیں یہ سب کرنا ہوگا اور یہی تو کریئر ہے جس کے سہارے آج تم اس بلند مقان پر ہو۔ تو کیا تم اس فلم نگری کو چھوڑ دوگی؟

اس کے جواب میں شہلہ نے برجستہ کہا: ”ہاں“میں ہر وہ جہاں اور کام چھوڑ دوں گی جو مجھے میرے مقصد حیات سے دور کردے اور میرے رب سے میرا تعلق توڑدے۔ مجھے اللہ نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ میں اس کی نافرمانی میں زندگی بسر کروں۔

ششما نے اسے پھر سمجھایا:سوچ لو۔ یہ مت بھولو کہ یہ شہرت تمہیں یوں ہی مل گئی ہے۔ بڑی محنت اور کوششوں سے تم نے مقام حاصل کیا ہے۔ اس نگری سے نکل کر تم کوئی پارسا نہیں ہو جاؤگی،لوگ تمہیں پرانی زندگی سے ہی یاد کریں گے۔ ان کے طعنوں کا شکار رہو گی۔

اس پر مسکراتے ہوئے شہلہ نے جواب دیا: میں یہاں کسی کی مرضی سے تو آئی نہیں تھی۔ اس لیے اب میں خود اپنی مرضی سے جا رہی ہوں تو مجھے اس میں کسی کی کوئی پرواہ نہیں۔ میں اپنے رب کو ناراض رکھ کر اس کی بغاوت کرتے ہوئے جینا نہیں چاہتی۔ مجھے اپنے رب کا قرب اور تعلق عزیز ہے اس کے لیے میں ہر طعنے سہنے کو تیار ہوں۔

تب ششما نے اس کی پیٹھ تھپتھاتے ہوئے کہا: جا میری جان،واقعی تیرا مذہب کتنا عظیم ہے، تجھے اپنے رب پر کتنا اعتماد ہے۔ واقعی اصل زندگی تو اوپر والے کے بنائے نیموں کے انوسار ہی بتانا چاہیے۔ اگر سارے لوگ ایشور کے نیم کا پالن کرنے لگے تو پھر دنیا میں کہیں کوئی بے حیائی، فحاشی اور ظلم و ستم نہیں رہے گا۔حیا عورتوں کا گہنا ہے بے حیائی تو اس کی مجبوری بن جاتی ہے اور اس مجبوری کو لوگ عورتوں کی آزادی تصور کرتے ہیں جو درحقیقت عورتوں تک بنا رکاوٹ پہنچنے کے لیے ظالم سماج کے ہت کنڈے ہیں۔ اب میں بھی اسلام کی اسٹڈی کروں گی۔

ششما بڑے جذباتی انداز میں اپنے باتیں بیان کر رہی تھی تب ہی ایک ڈائریکٹر آیا اور اس نے ششما کو آواز دی، ارے ششما تم یہاں بیٹھی ہو جلدی چلو، شوٹنگ کا ٹائم ہو رہا ہے۔ تمہارے آئی ٹم سانگ کا سیٹ تیار ہو ہے۔
شہلہ اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھتی رہی اور اپنے فیصلے پر رب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:تھینک گاڈ!
محب اللہ قاسمی


Monday 22 July 2019

Mumin Buzdil Nahi


مومن بزدل نہیں ہوتا
تاریخ شاہد ہے کہ ظلم جتنا سہا گیا، اس پہ جس قدر خاموشی اختیار کی گئی یا انصاف میں جتنی تاخیر ہوتی رہی ،ظلم اسی قدر بڑھتا گیا، ظالموں کے حوصلے اسی قدر بلند ہوتے گئے. معاشرہ میں فساد اور انسانیت سوز واقعات اتنے ہی بڑھتے گئے۔ اس وقت پوری دنیا سمیت ہمارے وطن عزیز کا بھی یہی حال ہے۔ ظالموں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس پر اٹھنے والی آواز سختی سے دبائی جا رہی ہے۔مظلوم انصاف کا لفظ سننے کو ترستا ہوا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ مگر اسے انصاف نہیں ملتا۔ اس طرح بے قصور کی پوری زندگی محض الزام کی نذر ہوکر تباہ کر دی جا رہی ہے۔

ظلم سہنے کا یہ عالم ہے کہ پے در پے اس ظلم کا شکار کسی خاص مذہب یا گروہ کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ پوری انسانیت اس کی زد میں ہے۔ خاص طور پر جب کوئی مسلمان یا پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد ہو تو پھر اس کا خون بہانا ان ظالموں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں رہ جاتی۔خواہ وہ بزرگ ہو یا ادھیڑ عمر کا یا پھر کوئی معصوم سا بچہ۔ نفرت کے سودا گر، سیاست کی روٹی سیکنے والے ان کے خون سے پیاس بجھا کر اپنے کلیجے کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔جب کہ ان مٹھی بھر فاسد عناصر کو دنیا تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہے اور ظلم پر لب کشائی کو جرأت بے جا یا مصلحت کے خلاف تصور کرتی ہے۔

دوسری طرف مسلمان جس کا فریضہ ہی دنیا میں اللہ کے بندوں کو معرفت الٰہی سے روشناس کرانا ،عدل و انصاف کے ساتھ امن و امان قائم کرنا اور ظلم و غارت گری کو جڑ سےختم کرنا ہے۔ وہ دنیا کی چمک دمک میں ایسا مست ہے کہ اسے عام انسان تو درکنار خود اپنے نوجوان ، بچے، بوڑھے کی شہادت اور ان کے بہیمانہ قتل پر بھی کچھ درد محسوس نہیں ہوتا ۔اگر کوئی اپنا قریبی رشتہ دار ہے تو چند روز آنسو بہا کر خاموش ہو جانا ، پھر چند ایام کے بعد ایسے ہی فساد کا شکار دوسرا کوئی مارا جاتا ہے، تو کچھ روز گریہ و زاری کر لینا اس کا مقدر بن چکا ہے۔ ہمارے قائدین، جو قوم و ملت کی قیادت کا فریضہ انجام دیتے ہیں، وہ اخبارات میں ان واقعات کی کھلی مذمت تو ضرور کرتے ہیں، مگر کوئی ایساٹھوس لائحہ عمل تیار کر کے عملی اقدام نہیں کر تے جس سے آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں ، ان کی قیادت پر اعتماد بحال ہو اور دل و جان سے ان پر قربان ہونے کو تیار رہے.

جب کہ تاریخ نے انھیں ان کا مقام بتایا، اسلام نے ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا، ماضی کے واقعات نے ان کو اپنے فریضہ کی ادائیگی کا سلیقہ سکھایا اور نعرہ تکبیر نے ان کے اندر حوصلہ دیا کہ وہ ظالموں کو لرزا بہ اندام کرتے ہوئے ان کے ہی میدان میں انصاف کا جھنڈا گاڑ دیں۔ اسلام نے سسکتی انسانیت کو جینے کے بنیادی حقوق دیے،ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ ساتھ ہی ظالموں کی سرکوبی کے لیے مسلمانوں کو باہمت، باحوصلہ اور بہادر بننے کی ترغیب دی۔مومن کو ایمانی اور جسمانی ہر اعتبار سے مضبوط بننے پر زور دیا۔ قرآن پاک اور احادیث رسول میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ بزدلی کو مومنانہ شان کے منافی قرار دیتے ہوئے مومن بزدلی کے قریب بھی نہ پھٹکے اور اس سے بچنے کے لیے اللہ سے دعا کرتے رہنے کی تعلیم دی۔

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ (بخاري)

اے اللہ! میں رنج و غم سے ،عاجزی و سستی سے،کنجوسی اور بزدلی سے، قرض کے غلبہ اور لوگوں کے تسلط سے تیری پناہ مانگتا ہوں

اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے جب تک ہم عمل کا رد عمل پیش نہیں کرتے اور اس رد عمل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل تیار کرکے اسے عملی جامہ نہیں پہناتے تو دادری کے اخلاق سے جھار کھنڈ کے تبریز تک قتل و خوں ریزی کا طویل سلسلہ جاری رہےگا ۔ بلکہ یہ سلسلہ مزید دراز ہوتا چلا جائے گا.

ہم دنیا کی محبت میں گرفتار، بزدلی کے شکار اپنا سب کچھ ختم کر لیں گے۔ دنیا تو تباہ ہوگی ہی ، آخرت میں بھی خسارے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا اور ہماری نسلیں ہمیں کوسیں گی کہ ہمارے آبا و اجداد نے اتنی قربانیاں دیں۔ ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا اور بعد میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں غلام بنا لیے گئے۔ ہمارےاتنے سارے ادارے قائم تھے پھر بھی ہمارا دینی تشخص، بنیادی حقوق، اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی آزادی سب سلب کر لی گئی اور ہمیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر حالات میں لاکھڑا کردیا۔

عقل مند انسان وہی ہے جو پرفریب دنیا کی چاہت سے آزاد ہو کر مسقبل کو بہتر بنانے کے لیے ماضی سے سبق لے کر حال میں اپنی پوری جد وجہد صرف کردے۔
(محب اللہ قاسمی)

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...