Sunday 23 March 2014

Woh Muazzaz the zamane men Musalman ho kar



کروٹ لیتاہوا زمانہ ،جس کیمصائب و آلام میں  گرفتار،ہرظلم وستم سہنے پر مجبور، ذلت ونکبت کے دلدل میں  پھنسی ہوئی اور  اپنے حقوق سے محروم، اس دھرتی پر وہ کون سی قوم ہے ،جن کے بیٹے آج ہتھکڑیوں میں  جکڑے ہوئے،جانوروں کی طرح پنجروں  میں  اور ناکردہ جرم کی پاداش میں  جیلوں کی تاریک کوٹھریوں میں بندہیں  ،ان کی مائیں  ماتم کناں  اور  بہنیں  نوحہ خواں  ہیں ، جن پر دشمن حملہ آورہے ،ان کے شعائرکا مذاق سرراہ اڑایا جارہا ہے، انھیں  اپنے پیغمبر کے تعلق سے اہانت آمیز باتوں کا سامناہے،جن کی پیروی کو قدامت پسندی کا طعنہ دیاجارہے؟ اور  اپنے شعائروکلچرکواپنانے والے افرادکو ’’دہشت گرد‘‘کی گالی دی جارہی ہے۔  تویقینا آپ کا جواب ہوگا کہ یہ ’’ مسلم ‘‘قوم ہے۔
صدیوں تک دنیا کی حکومت اس کے قبضے میں  رہی ،کوئی قوم ترچھی نگاہ ڈالنے کی تاب نہ رکھتی تھی، اس کے فرزنداسلامی جھنڈالے کرجدھر رخ کرتے بڑھتے ہی چلے جاتے تھے۔ وہ ہواؤں  کا رخ موڑدیتے ،ہرمیدان ان کے ہاتھ ہوتا۔ ان کی ایک صداپر جنگل کوجانوروں نے خالی کردیا، ان کے قدموں میں  سُپرطاقت(قیصروکسری )آگئی جن کے سپوتوں  کے عزم وحوصلے، جواں  مردی وبہادری وحکم رانی کے واقعات پڑھ کر بے ساختہ لبوں  سے یہ جاری ہوتا ہے۔  ع
وہ معزز تھے زمانے میں  مسلماں  ہو کر                  اور تم خوار ہوئے تارک قرآں  ہو کر
اگرہم غورکریں کہ آج ہم ثریاسے تحت الثری میں  کیوں پہنچ گئے ؟ تواس کا جواب ہوگا :
’’حب الدنیا وکراہیۃ الموت‘‘  (دنیا کی محبت اور موت سے نفرت )۔
آج ہمارے قلوب دنیا کی محبت اس کی رنگینیوں  سے الفت ،اس کے اسباب تعیش کے خوگر،موت سے متوحش ،خوف خدا سے خالی اور  ایمانی حرارت ،اسلامی جرأت وبے باکی سے محروم ہوگئے۔  یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ بڑی تعدادبھی سمندر کے جھاگ کی مانندہوگئی ہے۔  ان حالات میں  خواب غفلت سے بیدار ہونے،گم کردہ مقام کے حصول پر کمربستہ ہونے ،احکام الٰہی وفرامین رسول کو حرز جان بنانے ، صحابہ وسلف وصالحین کوعملی نمونہ بنانے اور خدمت اسلام کے تئیں  کچھ کر گزرنے کے حوصلے کی ضرورت آن پڑی ہے۔
آج بہت سے مسلمان دیگر اقوام کی طرح اپنی کامیابی اور اپنے مسائل کا حل مادی اسباب اور  غیروں  کے طریقہ کار میں  تلاش کرتے ہیں  ۔ ان کے نظام زندگی کو اپنے لیے راہ منزل قرار دیتے ہیں  اور اپنی بودوباش ،رہن سہن ،انداز فکر اور اخلاق وکردار،طورطریقے کوغیراسلامی سانچے میں  ڈھال کر اس پہ رواں  دواں  ہیں ۔ حالانکہ انسان کی پسنداورناپسند اس کے ذوق ورجحان سے ہی ہوتی ہے۔ یہ کس درجہ کی مرعوبیت ہے کہ اسلامی تہذیب کا پاس ولحاظ نہ رکھا جائے اور  دوسروں کے کلچراوراس کے رسوم کو پسند کرکے اسے اختیارکیاجائے۔ ایساکرنے والے کے دل سے میں  اسلام کی روح نکل جاتی ہے اور وہ گویا اپنے طرززندگی سے غیراسلامی طریقہ اور شعارکو اسلام کے مقابلے میں  شعوری یا غیرشعوری طورپر بہترقراردے رہاہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے متنبہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
من تشبہ بقوم فہومنہم  (ابوداؤد)
’’جوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اسی قوم میں  سے ہے۔ ‘‘
اس کا نتیجہ ہے کہ ریت پر تعمیر کردہ یہ محل ہوا کے چھونکوں سے اڑکر خشک وخاشاک کی طرح بکھرجاتاہے۔ پھر یہی لوگ حماقت میں  خود کومسلمان سمجھ کر خود کو اور اپنی قوم کو برابھلاکہتے ہیں ۔  جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا یزنی الزانی حین یزنی وہو مومن ،ولا یشرب الخمر حین یشرب وہو مؤمن، ولا یسرق حین یسرق وہو مؤمن، ولا ینتہب نہبۃ یرفع الناس الیہ فیہا ابصارہم حین ینتہبہا و ہو مؤمن۔      (بخاری)
’’زنا کرتے وقت زانی مومن نہیں  رہتا اور نہ شراب پیتے وقت وہ مؤمن رہتاہے۔  اسی طرح چوری کرتے وقت وہ مؤمن نہیں  رہتااورنہ اس وقت مومن رہتاہے جب کسی کا مال لوٹتاہے اور  لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔
مسلمان صرف کلمہ پڑھ لینے سے نہیں  بلکہ پورے اعتقادکے ساتھ خود اس نظام حیات کے سپرد کردینے کا نام ہے ،کیوں کہ
خردنے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں  نہیں  تو کچھ بھی نہیں
قرآن کریم میں  کئی مقامات پر مومنوں سے ایمان لانے کامطالبہ کیاگیا،جس پر سوال ہوتاہے کہ ایمان والے سے ایمان کا کیا مطالبہ ؟وہاں  اس کی تفسیربیان کی جاتی ہے کہ اللہ اپنے مومن بندوں کو ایمان کامل سے متصف دیکھنا چاہتاہے اس لیے اسے ایمان کامل کا حکم دے رہاہے۔ اسی طرح ایک آیت میں  اللہ نے بندوں کو پوری طرح اسلام میں  داخل ہوجانے کا حکم دیتاہے کہ اس میں  کوئی کجی یا کوتاہی نہ کرے بلکہ شرائع اسلام کا پابند بنے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یا ایہاالذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ
اے مؤمنو!اسلام میں  پوری طرح داخل ہوجاؤ(سور بقرہ:208)
مسلمان سوچتاہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے اسے سربلندی حاصل ہونا چاہیے، عزت کامقام ملناچاہیے تواسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ واقعی مسلمان ہے یا نہیں  ؟ جس کا قرآن وعدہ کرتاہے:
لاتہنوا و لا تحزنوا وانتم الاعلون ان کتنم مؤمنین (آل عمران:139)
(تم نہ دل برداشتہ ہو اور نہ غم گین ہو،تم ہی سربلندرہوگے بشرط کہ تم مومن ہو)
یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ امت ایک بہترین امت جس کا امتیازی کام ’’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ہے ۔  اگرامت اس فریضہ سے غافل ہوگی۔ تولامحالہ وہ  دوسروں  کے رسوم وبدعات میں  ملوث ہوگی۔  پھر اس کا جوانجام ہوگا وہ پوری امت کے لیے یکساں  طورپر ہوگا۔ جس طرح گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستاہے اسی طرح برے لوگوں  کے ساتھ اچھے لوگ بھی اس دائرۂ عذاب میں  شامل ہوں گے۔ موجودہ دورکی یہ پریشانیاں  ایک عذاب ہے،جس سے نجات کے لیے ہم اسلامی طریقے کے علاوہ دوسری تمام راہ اختیارکررہے ہیں ، جب کہ یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں  ہے۔
اللہ تعالی نے مومنوں کے اوصاف بیان کیے ہم ان اوصاف اپنے اندرکیوں نہیں  تلاش کرتے ؟ صرف اپنے مسلم گھرانے میں  پیداہوجانے اور اپنے اسلامی نام کے ذریعے اپنا تشخص ڈھونڈتے ہیں  لیکن اسلام کی خوبیاں  حاصل کرنے کے لیے خودکو ان  اوصاف سے متصف نہیں  کرتے جومؤمنوں کی پہچان ہے جن سے انسان ایک بہترین انسان بنتاہے ۔ اللہ تعالی اپنے ماننے والوں کو اس صفت میں  دیکھنا چاہتاہے:
’’رحمن کے (اصلی) بندے وہ ہیں  جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں  اور  جاہل ان کے منہ آئیں  تو کہہ دیتے ہیں  کہ تم کو سلام۔  جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں  راتیں  گزارتے ہیں ۔  جو دعائیں  کرتے ہیں  کہ ’’اے ہمارے رب ،جہنم کے عذاب سے ہم کو بچالے، اس کا عذاب توجان کالاگوہے، وہ توبڑا ہی برامستقراورمقام ہے۔ ‘‘جوخرچ کرتے ہیں  تونہ فضول خرچی کرتے ہیں  نہ بخل،بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں  کے درمیان اعتدال پرقائم رہتاہے۔ جواللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں  پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں  کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔  یہ کام جوکوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔  قیامت کے روزاس کومکررعذاب دیاجائے گا اور اسی میں  وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑارہے گا۔  الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکاہو اور ایمان لاکرعمل صالح کرنے لگا ہو۔  ایسے لوگوں کی برائیوں کواللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑاغفوررحیم ہے۔  جوشخص توبہ کرکے نیک عملی اختیارکرتاہے وہ اللہ کی طرف پلٹ آتاہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔ (اوررحمن کے بندے وہ ہیں ) جوجھوٹ کے گواہ نہیں  بنتے اور کسی لغوچیزپران کا گزرہوجائے توشریف آدمیوں کی طرح گزرجاتے ہیں ۔  جنھیں  اگران کے رب کی آیات سناکر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کرنہیں  رہ جاتے۔  جودعائیں  مانگا کرتے ہیں  کہ ’’اے ہمارے رب ہمیں  اپنی بیویوں اور اپنی اولادسے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کوپرہیزگاروں کا امام بنا۔ ‘‘یہ ہیں  وہ لوگ جواپنے صبرکاپھل منزل بلند کی شکل میں  پائیں  گے۔  آداب وتسلیمات سے ان کا استقبال ہوگا۔  وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں  رہے گے۔  کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور  وہ مقام۔ ‘‘    (سورہ فرقان: 63)
ان اوصاف کے حامل تھے وہ مسلمان جو معززرہے ، اس لیے مسلمانوں کوچاہیے کہ وہ اپنے علم وعمل ،گفتاروکردار،نشست و برخاست کومکمل طور پر اسلامی سانچے میں  ڈھالیں  اور اصلاح معاشرہ کے ساتھ ساتھ اقامت دین کی جدوجہد کریں ،اسلام دشمن کے ہر پروپگنڈے کا حکمت ودانش مندی سے دندان شکن جواب دیں ،اس کے بعد اگرکوئی گناہ یا غلطی سرزدہوجائے تو اللہ کی طرف رجوع کریں  اور اپنی غلطی پر نادم ہوکرتوبہ کریں ۔



No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...