Showing posts with label Ghazal. Show all posts
Showing posts with label Ghazal. Show all posts

Tuesday 22 June 2021

Mumkin Nahi Khayal Yahan ho Wahan na ho


کلام اور آواز محب اللہ رفیق قاسمی سورج نہ ہو، یہ چاند نہ ہو،آسماں نہ ہو کافی خدا ہے، چاہے یہ سارا جہاں نہ ہو احساں جتا نے والوں سے لازم ہے فاصلہ کم ظرف سا جہاں میں کوئی مہرباں نہ ہو تو چاہتا ہے چھوڑ دوں تنقید اس لیے مجھ سے امیر شہر کہیں بدگماں نہ ہو کھویا ہوا ہوں اس کے ہی فکروخیال میں 'ممکن نہیں خیال یہاں ہو وہاں نہ ہو' بے نورمحفلیں ہیں اوربے رنگ ہے چمن ہر شے فضول ہے وہ اگر گل فشاں نہ ہو ظلم و ستم کو مجھ کو مٹانا ہے اے رفیق! مجھ کوغرض نہیں کہ فلاں ہو فلاں نہ ہو
محب اللہ رفیق قاسمی
Mohibbullah Rafique Qamsmi

Tuesday 29 December 2020

Tuesday 15 September 2020

Safar Hi Safar Hai

جو ٹکرائے ظالم سے ظلمت مٹا ئے
اسی سے ہمیں بس امیدِ سحر ہے
غزل ملاحظہ فرمائیں۔
کلام اور آواز: محب اللہ رفیق قاسمی

Thursday 27 August 2020

Ghazal: Kharch Kardiya Jaye



غزل

جرم جس کا ثابت ہو جرم ہی کہا جائے
جس قدر بھی واجب ہو قید میں رکھا جائے

مسئلہ جو حق کا ہو بر ملا کہا جائے
بھول کو بزرگوں کی بھول ہی کہا جائے

رہبران ملت تو عیش میں ہیں اے لوگو!
کس کو کیا کہا جائے، کس سے کیا سنا جائے

عدل تو ضروری ہے مسئلہ کسی کاہو
بے رعایتِ بے جا فیصلہ کیا جائے

بھوکے رہ کے روزے میں ہم نے یہ بھی جانا ہے
بے دریغ بھوکوں پر خرچ کر دیا جائے

جو جہاد کی شمعیں جل رہی تھیں ماضی میں
کیوں نہ اے رفیقؔ ان کو جگمگا دیا جائے

محب اللہ رفیقؔ قاسمی

Monday 22 June 2020

Meri Zindagi Tera Shukria





مری زندگی! ترا شکریہ

کلام اور آواز

محب اللہ رفیق قؔاسمی

Wednesday 3 June 2020

Barmala Kaha Jaye





غزل
جرم جس کا ثابت ہو جرم ہی کہا جائے
جس قدر بھی واجب ہو قید میں رکھا جائے

مسئلہ جو حق کا ہو بر ملا کہا جائے
بھول کو بزرگوں کی بھول ہی کہا جائے  

رہبران ملت تو عیش میں ہیں اے لوگو!
کس کو کیا کہا جائے، کس سے کیا سنا جائے

عدل تو ضروری ہے مسئلہ کسی کاہو
بے رعایتِ بے جا فیصلہ کیا جائے

بھوکے رہ کے روزے میں ہم نے یہ بھی جانا ہے 
بے دریغ بھوکوں پر خرچ کر دیا جائے

جو جہاد کی شمعیں جل رہی تھیں ماضی میں
کیوں نہ اے رفیقؔ ان کو جگمگا دیا جائے
محب اللہ رفیقؔ قاسمی

Sunday 31 May 2020

Ghazal: Ummed e Sehar hai



غزل

نہ خوف خدا ہے نہ خوف بشر ہے
ہوئی موت کیسے، کسے کب خبر ہے

نہ تم کو مفر ہے نہ ہم کومفر ہے
ازل سے ابد تک سفر ہی سفر ہے

ڈگر کا پتا ہے نہ منزل کی پروا
ہے رخ کس طرف اور جانا کدھر ہے

نظر تو ہی آتا ہے ہر شے میں مجھ کو
تری دید کا مجھ پہ اتنا اثر ہے

جو ٹکرائے ظالم سے ظلمت مٹائے
اسی سے ہمیں بس امیدِ سحر ہے

جو تیرے ہی در پر کرےجبہ سائی
وہ اہل خرد ہے وہ اہل نظر ہے

یقین خدا ہے تو کیا غم ہے ناداں!
ترےساتھ حق ہے تو کا ہے کا ڈر ہے

رفیق حزیں! ہے جو رخ سوے منزل
پہنچ جائے گا تو تجھے کیا خطر ہے

محب اللہ رفیق قاسمی




Saturday 21 April 2018

Ghazal : Huffaz Shahidon pe jo kuch bhi hua kuch bhi nahi hai


 غزل


ایمان کی دولت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
راضی جو نہیں رب تو بھلا کچھ بھی نہیں ہے 


دنیا میں سکوں، عقبی میں توقیر کی چاہت
ایمان نہیں ہے تو ملا کچھ بھی نہیں ہے



ہر درد جہاں کی ہے دوا، دین نبیؐ میں
اس کے سوا دنیا میں دوا کچھ بھی نہیں ہے 



تم کو  تو  ملالہ کا بڑا رنج ہے لیکن
خفاظ پہ جو کچھ بھی ہوا کچھ بھی نہیں ہے



فرعون تو غرقاب ہوا تو بھی مٹے گا
قاتل کہیں بچوں کا بچا کچھ بھی نہیں ہے



غیرت نے پکارا ہے کہ میدان میں آؤ
جینے کا مزہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے



ظلمت کو مٹانا ہے تو جل شمع کے مانند
ظلمات کے شکوے سے ملا کچھ بھی نہیں ہے


ظالم تو مٹانے پہ تلے ہیں ہمیں لیکن
ظالم کو مٹانے کی صدا کچھ بھی نہیں ہے



مولی کی رضا پر ہی چلو تم بھی رفیق اب
منزل ہے وہی اس کے سوا کچھ بھی نہیں
 محب اللہ رفیقؔ



Friday 13 April 2018

Gazal : Dil me bbat chupa kar rakhna


غزل

دل میں بات چھپا کر رکھنا
کچھ جذ بات دبا کر رکھنا

خوابوں کی تعبیر کی خاطر
سارے خواب سجا کر رکھنا

نفرت کے تاریک جہاں میں 
پیار کی شمع جلا کر رکھنا 

بے باکی کے شیدائی ہو
رات کو رات بتا کر رکھنا 

پھونٹ ڈال کر ٹوٹ نہ جانا
سب کو ساتھ ملا کر رکھنا 

سودا مت کر لینا ہرگز
تم ایمان بچا کر رکھنا 

سکھ دکھ ساتھی ہیں جیون کے 
ان کو دل سے لگا کر رکھنا 

غیروں کو اپناؤ لیکن 
اپنوں کو اپنا کر رکھنا

محب اللہ رفیقؔ

Wednesday 21 March 2018

Ghazal : Bas wo INSAN sab se Behtar hai

غزل

بس وہ انسان سب سے بہتر ہے
جس کا دل الفتوں کا ساگر ہے

اس کا جینا بھی کوئی ہے جینا 
جس کا یاور نہ کوئی دلبر ہے

وہ نہ جنت میں جا سکے گا کبھی
کرتا ماں باپ کو جو بے گھر ہے

یہ خموشی ہی جان لے لے گی 
کہہ دے جو بات دل کے اندر ہے

سر کہیں پر وہ جھک نہیں سکتا 
جو خمیدہ خدا کے در پر ہے

وہ کسی سے کبھی نہیں ڈرتا 
اپنے اللہ کا جسے ڈر ہے

کتنا ارزاں لہو ہے انساں کا 
’ہر طرف خون سے زمیں تر ہے‘

کشتی جیون کی ہے بھنور میں رفیقؔ 
بس امیدِ خدائے بر تر ہے

 محب اللہ رفیقؔ 

Sunday 29 October 2017

Zara Deer Lagegi

غزل

گر مجھ کو تڑپنے میں ذرا دیر لگے
ان کو بھی مچلنے میں ذرا دیر لگے گی
طوفانِ بلا خیز سرراہ ہے حائل
منزل پہ پہنچنے میں ذرا دیر لگے گی
خود ہوگا شکاری بھی شکار، ایک نہ اک دن
حالات بدلنے میں ذرا دیر لگے گی

میں حرف نہیں ہوں کہ مٹادے گا مجھے تو
یوں مجھ کو مٹانے میں ذرا دیر لگے گی
تم رکھتے رہو زخمِ دلِ زار پہ مرہم
گھائل کو سنبھلنے میں ذرا دیر لگے گی
دعویٰ تو رفیقؔ اس کا، رفاقت کا ہے لیکن
نیت کو پرکھنے میں ذرا دیر لگے گی
محب اللہ رفیق

Tuesday 24 October 2017

Ghazal: Zindagi keya hai

غزل  …  زندگی کیا ہے

راہِ پر خار سے جو گیا بھی نہیں
زندگی کیا ہے اس کو پتا بھی نہیں

کس قدر گہرا رشتہ ہے امید سے
میں نے اس کا لیا، جائزہ بھی نہیں

درد دے کر وہ کہتے ہیں ہمدرد ہوں
اس سیاست کا کوئی سرا بھی نہیں

آرزو لے کے ملنے گیا تھا مگر
میں نے کچھ کہا اور سنا بھی نہیں

اس سے برسوں تعلق تھا مرا مگر
اب مری قسمت وہ دیکھتا بھی نہیں

داغ چھپ جائیں چہرے کے جس میں سبھی
جگ میں ایسا کوئی آئینہ بھی نہیں

ہے رفیقؔ اپنا رشتہ ہر انسان سے
میں کسی کو کبھی جانچتا بھی نہیں


محب اللہ رفیقؔ

Ghazal: woh Shaksh hi dunya men mahboob

غزل

وہ شخص ہی دنیاں میں محبوب خدا ہوگا
جس کے لیے اسوہ ہی آئینہ بنا ہوگا

اس پر نہ بھروسہ کر دشمن سے ملا ہوگا
اس دشمن جانی سے کب، کس کا بھلا ہوگا

صرف اس کی عبادت پر بخشش تو نہیں ممکن
بندوں کا بھی حق تجھ سے جب تک نہ ادا ہوگا

اس نسل کی حالت بھی یونہی نہ ہوئی بد تر
اس میں تو قصور آخر اپنا بھی رہا ہوگا

دریائے رواں خوں کا اعلان یہ کرتا ہے
اس قتل کا منصوبہ پہلے سے بنا ہوگا


محب اللہ رفیقؔ


Ghazal Ghayel Hua hun mai

غزل

کچھ ایسے ان کے ناز کا محمل ہوا ہوں میں
گویا کسی کے تیر سے گھائل ہوا ہوں میں

میں بے خودی میں ڈھونڈتا رہتا ہوں بس اسے
اب تو اسی کے کوچے کا سائل ہوا ہوں میں

اس کی نگاہ شوخ کبھی اٹھ نہیں سکی
اس کی اسی حیا کا تو قائل ہوا ہوں میں

حالات بگڑتے ہی وہ لوگ کٹ گئے
جن کے غموں کے بحر کا ساحل ہوا ہوں میں

لوگوں کے درد بانٹ کر میں بن گیا رفیق
مدت سے اس طریق پہ عامل ہوا ہوں میں

محب اللہ رفیقؔ


Ghazal: Bhole Nahi hain ham

غزل

غم توملے بہت مگر، روئے نہیں ہیں ہم
دل کو اداس تو کیا توڑے نہیں ہیں ہم

روکے بہت گئے تری یادوں کے قافلے
بڑھتے رہے قدم کبھی لوٹے نہیں ہیں ہم

کہتے تھے لوگ لوٹ جا مشکل ہے رہ گزر
چادر قنوط کی کبھی اوڑھے نہیں ہیں ہم

یادوں نے کیا مجھ کو بہت مضطرب صنم
راتوں کو کبھی چین سے، سوئے نہیں ہیں ہم

ماں باپ کی محبت و شفقت ہے لازوال
حقا کسی بھی گام پہ بھولے نہیں ہیں ہم

دنیا کی لذتوں نے ہمیں کردیا نڈھال
ورنہ بہت ہیں آج بھی تھوڑے نہیں ہیں ہم

چھیڑوں نہ بار بار ہمیں اے ستم گرو!
تاریخ ہے گواہ کہ کورے نہیں ہیں ہم

حالات زار پوچھتے ہیں، وہ بھی اے رفیقؔ
جن کے جفا و جور بھولے نہیں ہیں ہم


محب اللہ رفیقؔ

Saturday 13 May 2017

Ghazal: Jado se apni juda hua hai

غزل

جڑوں سے اپنی جدا ہوا ہے
مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے


ترقی، تہذیبِ عصر حاضر
کہ انسان شیطاں بنا ہوا ہے


فقط دکھایا تھا آئینہ ہی
اسی پہ قائد خفا ہوا ہے


تلاش قاتل کی کرنے والو
تمہیں میں قاتل چھپا ہوا ہے


چٹائی پر بھی تھا کوئی رہبر
یہ قصہ گویا سنا ہوا ہے


وفا کا جس نے کیا تھا وعدہ
وہ دشمن جاں بنا ہوا ہے


ہمارے عہد وفا کا قصہ
آب زر سے لکھا ہوا


وہاں سنبھل کر رفیق چلنا

جہاں پہ کانٹا بچھا ہوا ہے

Monday 27 February 2017

Ghazal: Zindagani ka Maza Usne hi paya hoga

غزل

زندگانی کا مزہ اس نے ہی پایا ہوگا
جس نے سینے سے غریبوں کو لگایا ہوگا


جب بھی آتی ہے خوشی غم مجھے دے جاتی ہے
غم بھی لگتا ہے خوشی میں ہی سمایا ہوگا

آتش عشق ہے یہ، اس کو بجھا کر دیکھو
آندھیو! تم نے چراغوں کو بجھایا ہوگا

گو بلندی پہ پہنچ جائے مگر ہے مجرم
بے قصوروں کا لہو جس نے بہایا ہوگا

عزم و ہمت کو مرے آؤ گرا کر دیکھو
’آندھیو! تم نے درختوں کو گرایا ہوگا‘

ماں کی ممتا کا تو اندازہ نہیں کرسکتا
بھوکے رہ کر بھی تجھے اس نے کھلایا ہوگا

جس کو سینچا تھا رفیقؔ اپنا لہو دے کے کبھی
کیا خبر تھی کہ وہی پھول پرایا ہوگا


محب اللہ رفیقؔ

Wednesday 22 February 2017

Ghazal: Lakh Dushwar ho Chalna to magar hai peyare

غزل

لاکھ دشوار ہو چلنا تو مگر ہے پیارے
چلتے رہنا ہی تو جیون کا سفر ہے پیارے

جب کبھی تیز قدم میرے چلے رستے پر
یہ صدا آئی ٹھہر عشق نگر ہے پیارے

ماں کی خدمت سے کبھی پہلو تہی مت کرنا
اس کا ہر سانس ترے حق میں اثر ہے پیارے

بس اسی کوچے سے شیوہ ہے گزرنا میرا
جس میں ہر گام پہ الفت کا ثمر ہے پیارے

کلمہ شرک کو میں گیت سمجھ کیوں گاؤں
یہ تو ایماں کے لیے مثل شرر ہے پیارے

بیٹھ جانا نہ سیہ رات سے گھبرا کے کبھی
رات کے بعد ہی تابندہ سحر ہے پیارے

ملک و ملت ہی مری سوچ کا محور ہے رفیقؔ
وقف اسی راہ میںہر علم و ہنر ہے پیارے


محب اللہ رفیقؔ

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...